صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ عراق جنگ میں حصہ لینے کےلیے، امریکہ اپنی بَری فوج عراق نہیں بھیجے گا۔
اس سے ایک ہی روز قبل اُن کے ایک اعلیٰ فوجی مشیر نے کہا تھا کہ ضرورت پڑنے پر، وہ صدر سے پیدل فوج کی تعیناتی کی سفارش کرسکتے ہیں۔
فلوریڈا کےشہر ٹمپا میں، امریکی سینٹرل کمانڈ کے فوجی ارکان سے خطاب کرتے ہوئے، صدر اوباما نے کہا کہ ’ہمارے پاس، زمین پر کارروائی کرنے والے ہمارے پارٹنرز کی حمایت کی بے مثال صلاحیتیں ہیں، جن کے ذریعے ہم زیادہ مؤثر طور پر کام کرسکتے ہیں‘۔
بقول اُن کے،’یہی ایک واحد حل ہے، جس کی مدد سے طویل مدت میں کامیابی حاصل ہوگی‘۔
جنرل مارٹن ڈیمپسی نے منگل کے روز سینیٹ کی ’آرمڈ سروسز کمیٹی‘ کو بتایا کہ اگر داعش کے شدت پسندوں کے خلاف جاری فضائی کارروائی مؤثر ثابت نہیں ہوتی، تو اُس صورت میں، وہ عراق میں فوج کی تعیناتی کی سفارش کریں گے۔
اِس سے قبل بھی، صدر اوباما کہہ چکے ہیں کہ امریکہ حملے کرنے کے لیے اپنی بَری فوج روانہ نہیں کرے گا۔
بدھ کو صدر نے کہا کہ داعش کے شدت پسندوں کے خلاف نمٹنے کے لیے دوست ملکوں کا ایک وسیع تر اتحاد موجود ہے، جو عراق سرزمین پر موجود عراقی فوج کی حمایت کر رہا ہے، جس طریقے سے ہی انتہا پسندوں کو کمزور کیا جائے گا، اور بالآخر، اُن کا قلع قمع کیا جائے گا۔
اُن کے بقول، ’بہت جلد، یہ دہشت گرد جان جائیں گے۔ بالکل ویسے ہی، جِس طرح سے القاعدہ کے لیڈروں کو سبق مل چکا ہے۔ ہم جو کہتے ہیں، وہی کرتے ہیں۔ ہماری پہنچ بہت دور تک ہے۔ اگر آپ امریکہ کو دھمکی دوگے، تو یہ یاد رکھو کہ آپ کو کوئی ٹھکانہ میسر نہیں آئے گا۔ بالآخر، ہم تمہیں ڈھونڈ ہی نکالیں گے‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ امریکی فوج داعش کے شدت پسندوں کے خلاف اب تک عراق میں 160 فضائی کارروائیاں کر چکی ہے۔