افغان جنگ ’’تعطل کی شکار ہے‘‘: اعلیٰ امریکی جنرل

جنرل نِکلسن نے امریکی سینیٹ کی کمیٹی کو بتایا کہ اِس تعطل زدہ صورت حال کو توڑنے کے لیے اُنھیں ’’مزید چند ہزار‘‘ فوجیں درکار ہوں گی، جو افغانستان میں تعینات 8400 امریکی فوجوں کے ساتھ مل کر کارروائی کر سکیں

افغانستان میں امریکہ کے ایک چوٹی کے کمانڈر، جنرل جان نکِلسن نے سینیٹ کی مسلح افواج کی کمیٹی کو بتایا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ 15 برس سے جاری لڑائی میں امریکی حمایت یافتہ افغان افواج ’’کُھل کر نہیں لڑ پا رہی ہیں‘‘۔

اُنھوں نے بتایا کہ اِس تعطل زدہ صورت حال کو توڑنے کے لیے اُنھیں ’’مزید چند ہزار‘‘ فوجیں درکار ہوں گی، جو افغانستان میں تعینات 8400 امریکی فوجوں کے ساتھ مل کر کارروائی کر سکیں۔

نِکلسن نے جمعرات کے روز سینیٹروں کی جانب سےکیے گئے سوالوں کے جواب دیے۔ اُن سے پوچھا گیا آیا افغانستان میں طویل عرصے سے جاری لڑائی کے سلسلے میں ٹرمپ انتظامیہ نے کیا منصوبہ تیار کیا ہے۔

نِکلسن نے کہا کہ اِس تعطل کو عبور کرنے کا مؤثر طریقہٴ کار یہ ہوگا کہ چابک دستی پر مبنی حملے کی صلاحیت پر عمل پیرا ہوا جائے، جب کہ تربیت، مشاورت، اور اعانتی مِشنز کے لیے اضافی امریکی فوجیں درکار ہوں گی؛ جب کہ کامیابی کے حصول کے لیے خصوصی افغان فورسز اور فضائی فوج ’’اہمیت کی حامل‘‘ ہیں۔

نِلکسن کے مطابق، گذشتہ سال، 80 فی صد اوقات میں، افغان افواج بغیر مدد کے کارروائیاں کرتی رہی، حالانکہ پچھلے سالوں کے مقابلے میں اُس کی کئی گُنا زیادہ ہلاکتیں واقع ہوئیں۔

گذشتہ سال 12 نومبر تک 6700 افغان فوجی ہلاک ہوئے۔ یہ بات افغانستان کی تعمیرِ نو سے متعلق خصوصی انسپیکٹر جنرل کی جانب سے شائع کردہ سہ ماہی رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔ سال 2015ء میں ہلاک ہونے والے افغان فوجیوں کی کُل تعداد 6600 تھی۔

نِکلسن نے کہا کہ اُنھیں ’’جانی نقصان کی بڑی شرح پر انتہائی تشویش لاحق ہے‘‘۔


اُنھوں نے کہا کہ بھرتی کی موجودہ سطح افغان افواج کو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ہلاک ہونے والے فوجیوں کی جگہ نئے فوجی تعینات کیے جائیں، وگرنہ فوج اپنی مکمل صلاحیت کا مظاہرہ نہیں کر سکے گی۔

رپورٹ میں اس بات کی جانب بھی توجہ مبذول کرائی گئی ہے کہ افغان حکومت رفتہ رفتہ ملک کے اندرونی علاقوں پر کنٹرول کھوتی جا رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، نومبر 2015ء سے نومبر 2016ء تک کی مدت کے دوران، حکومت نے ملک کے تقریباً 15 فی صد علاقے پر کنٹرول کھو دیا ہے۔

نِکلسن نے بتایا کہ دنیا کے 98 میں سے 20 گروپ، جنھیں دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے، وہ افغانستان و پاکستان کے خطے میں واقع ہیں، جس کے باعث اس خطے کو دہشت گرد گروپوں کی موجودگی کے لحاظ سے مشکل ترین علاقہ قرار دیا جاتا ہے۔

سینیٹر جان مکین نے مشورہ دیا کہ روس افغانستان میں ’’اہم کردار ادا کر رہا ہے‘‘۔ اِس بات سے اتفاق کرتے ہوئے، نِکلسن نے کہا کہ اس سال روس کی جانب سے مداخلتی حربوں کی بنا پر ’’مشکل میں اضافہ ہوا ہے‘‘۔

نِکلسن نے کہا کہ روس کا یہ کہنا کہ طالبان کا انتہا پسند گروپ داعش کے خلاف لڑائی میں معاون ثابت ہو رہا ہے، روس نے طالبان کی دہشت گرد حرکات کو جواز فراہم کیا ہے۔ تاہم، اُنھوں نے اس خیال کو ’’جھوٹا بیانیہ‘‘ قرار دیا۔

نِکلسن کے مطابق، افغان سکیورٹی فورسز نے داعش کے لڑاکوں کا تقریباً نصف ہلاک کر دیا ہے، اور اُن کے زیرِ قبضہ علاقے کو دو تہائی تک کم کر دیا ہے۔