آسٹریلیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ صحت، معیشت اور ماحولیات کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو رہی ہے جب کہ ماہرین موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ رواں ہفتے شدید ہیٹ ویو کا امکان ہے جو اس قدر شدید ہوگا کہ درجہ حرارت کا اب تک کا ریکارڈ ٹوٹ جائے گا۔
سرکاری اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ 2019 آسٹریلیا کے لیے خشک ترین سالوں میں سے ایک ہے۔
آسٹریلیا میں نومبر کے پہلے ہفتے میں جنگلات میں لگنے والی آگ سے اب تک چھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ 700 سے زائد مکانات تباہ اور کم ازکم 30 لاکھ ایکڑ اراضی پر پھیلے جنگلات جل کر راکھ ہو گئے ہیں۔
ملک کے سب سے بڑے شہر سڈنی میں کئی ماہ قبل لگنے والی آگ اور دھویں نے شہر کو اب تک اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔
پیر کو ڈاکٹرز کی جانب سے حکومت کو خبردار کیا گیا ہے کہ شہریوں کو صحت سے متعلق ہنگامی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جب کہ اموات کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔
آگ کے سبب سڈنی کے شمال میں واقع تقریباً 20 مکانات جل کر راکھ ہو گئے۔ ادھر راتوں رات لگنے والی آگے نے پرتھ کے شہریوں کی بھی نیندیں اڑا دی ہیں۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ سانس کے مریضوں کی اوسطاً تعداد میں 48 فی صد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ تعداد انتہائی ہولناک ہے۔
رائل آسٹرا لیشین کالج آف فزیشنز سمیت 20 سے زیادہ میڈیکل گروپس جو 25 ہزار ڈاکٹرز اور زیر تربیت ڈاکٹرز کی نمائندگی کرتے ہیں، انہوں نے پیر کو ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں حکومت سے زہریلی فضائی آلودگی سے فوری نمٹنے پر زور دیا ہے۔
ان گروپس کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی سے صحت عامہ کو نقصان پہنچ رہا ہے اور شہر بھر میں ہنگامی صورت حال کا سامنا ہے۔
سڈنی اور نیو ساؤتھ ویلز کے کچھ علاقوں میں فضائی آلودگی میں گیارہ فی صد تک اضافہ ہوگیا ہے۔
میڈیکل گروپس میں شامل ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ دھویں میں صحت کو نقصان پہنچانے والے ذرات کی تعداد بہت زیادہ ہے، اس لیے یہ صحت کے لیے نہایت خطرناک ہے۔
نیو ساؤتھ ویلز کے ریاستی محکمہ صحت کے مطابق پچھلے پانچ برس کے مقابلے میں 11 دسمبر کو ختم ہونے والے ہفتے میں سانس کے مریضوں کی اوسطاً تعداد میں 48 فی صد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
صحت کے ماہرین اور ڈاکٹرز نے حکومت سے دھویں کے اخراج پر قابو پانے کے لیے ہنگامی طور پر کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
وزیرِ اعظم اسکاٹ ماریسن نے گزشتہ ہفتے ایک بیان میں آگ لگنے کا سبب آب و ہوا میں تبدیلی کو قرار دیا تھا۔
نیو ساؤتھ ویلز میں اس وقت 100 سے زائد مقامات پر آگ لگی ہوئی ہے جب کہ 4 لاکھ ایکڑ پر لگی آگ پر قابو پانے کی کوششیں جاری ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ عالمی حدت اور طویل عرصے سے خشک سالی کی وجہ سے آگ لگنے کے واقعات تواتر سے پیش آ رہے ہیں۔ ان واقعات سے جہاں پینے کے پانی میں کمی واقع ہوئی ہے، وہیں کسان بھی اپنی زمینیں سیراب کرنے سے قاصر ہیں۔
جنوبی کوئنز لینڈ کے خشک سالی سے متاثرہ علاقے میں رہنے والے 35000 سے زیادہ افراد کو جمعرات سے ہنگامی صورت حال کے سبب ہر روز زیادہ سے زیادہ 80 لیٹر پانی استعمال کرنے کی اجازت ہوگی۔
جنوبی کوئنز لینڈ میں پچھلے تین برسوں سے بارش نہیں ہوئی۔ وزیرِ خزانہ نے میڈیا کو بتایا ہے کہ خشک سالی سے ناصرف شرح نمو کم ہوئی ہے بلکہ زرعی پیداوار میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی ہے جس سے بڑے پیمانے پر مالی نقصان ہوا ہے۔