اقوامِ متحدہ نے انڈونیشیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ کے باعث بڑھنے والی فضائی آلودگی سے تقریباً ایک کروڑ بچوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ جنگلات میں لگی آگ سے بڑے پیمانے پر گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج جاری ہے جو ماحولیات کے لیے خطرہ ہیں۔
آگ سے خارج ہونے والی زیرہلی گیسوں نے حالیہ ہفتوں کے دوران جنوب مشرقی ایشیا کے بڑے حصّے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس سے اس خطے میں فضائی آلودگی میں اضافہ ہوا ہے۔
بچوں کو آلودہ فضا اور زہریلی گیسوں کے خطرناک اثرات سے بچانے کے لیے اسکولوں میں تعطیلات کا اعلان اور ایئر پورٹس بھی بند کر دیے گئے ہیں۔
انڈونیشیا میں سانس کی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے جب کہ لوگ فیس ماسک خریدنے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہیں۔
بچوں کی صحت کے لیے کام کرنے والی اقوامِ متحدہ کی ذیلی تنظیم یونیسیف کا کہنا ہے کہ انڈونیشیا کے دو جزیروں، سماٹرا اور بورنیو میں تقریباً ایک کروڑ بچے آباد ہیں۔ جب کہ یہی وہ دو جزیرے ہیں جہاں آگے لگنے سے سب سے زیادہ بچے متاثر ہوتے ہیں۔
یونیسیف کے مطابق بچوں کا مدافعتی نظام بالغ افراد کے مقابلے میں کمزور ہوتا ہے۔ تنظیم کے بقول آلودگی کے ماحول میں ماں بننے والی خواتین کے بچے کم وزن ہوتے ہیں اور ان کی پیدائش قبل از وقت ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
یونیسیف کی ایک عہدے دار ڈیبورا کومینی کا کہنا ہے کہ انڈونیشیا کے لیے آلودہ فضا ایک بڑا چیلنج ہے۔ وہاں لاکھوں بچے زہریلی ہوا میں سانس لینے پر مجبور ہیں جس سے ان کی صحت کو خطرات لاحق ہیں
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے ملائیشیا میں بھی اسکول بند کر دیے گئے تھے جب آگ سے خارج ہونے والے گہرے دھویں سے ملائیشیا میں بھی فضائی آلودگی میں اضافہ ہو گیا تھا۔
ایمیزون سے لے کر آسٹریلیا تک، دنیا بھر کے جنگلات میں آگ بھڑکنے کا ایک طویل سلسلہ جاری ہے جب کہ سائنس دان عالمی درجۂ حرارت میں اضافے اور ماحولیاتی آلودگی کے اثرات پر فکر مند ہیں۔
انڈونیشیا کے جنگلات میں لگی آگ بجھانے کے لیے مقامی حکومت نے عملے کے ہزاروں افراد کو تعینات کیا ہوا ہے۔ اس مقصد کے لیے مصنوعی بارش برسانے میں مدد دینے والے متعدد طیاروں سے بھی مدد لی جا رہی ہے۔
حکومت کی ہر ممکن کوشش ہے کہ زرعی زمینوں کو آگ سے بچایا جا سکے۔
واضح رہے کہ انڈونیشیا میں ہر سال بڑے پیمانے پر آگ لگنے کے واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن 2015 کے بعد سے اب تک یہ جنگلات میں آگ لگنے کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔
یورپی یونین کے ارتھ آبزرویشن پروگرام میں شامل ماحولیات پر کام کرنے والے ایک ادارے کوپرنیکس ایٹموسفیئر مونیٹرنگ سروس کا کہنا ہے کہ رواں سال جتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس فضا میں خارج ہوئی ہے اتنی گزشتہ دو دہائیوں میں بھی خارج نہیں ہوئی تھی۔