ان دنوں وہ لاکھوں امریکی تشویش میں مبتلا ہیں جو ٹویوٹا گاڑیوں کے مالک ہیں ۔ ٹویوٹا گذشتہ کئی برسوں میں امریکہ کی بیسٹ سیلر کاررہی ہے۔مگر حال میں اس کے کئی ماڈلز میں فنی نقائص کے انکشاف کے بعد جہاں اس کی فروخت نمایاں طور پر کم ہوئی ہے ، وہاں اسے اپنے کئی صارفین کی جانب سے مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑرہاہے۔ سین ڈیاگو کیلی فورنیا میں وفاقی ججوں کے ایک پینل کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ٹویوٹا کمپنی کے خلاف امریکہ میں دائر کیے گئے کئی مقدموٕ ں کو یکجا کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔
ٹویوٹا نے حفاظتی نقائص کی وجہ سے دنیا بھرمیٕں تقریبا 85لاکھ کاروں کو مرمت کے لیے واپس منگوا لیا ہے۔جس کے بعد امریکہ میں ٹویوٹا کمپنی پر مقدموں کی بھرمار ہو گئی ہے۔ سین ڈیاگو کیلی فورنیا میں ایک وفاقی عدالت اس مقدمے کی سماعت کریگی کہ آیا ٹو یوٹا کاروں کے مالکان کے جانب سے کمپنی کے خلاف پورے امریکہ میں دائر سو کے لگ بھگ مقدمات کو یکجا کیا جاسکتا ہے؟
نارتھ ویسٹرین یونیورسٹی کے لاسکول کے ٹم ہاروڈ کا کہنا ہے کہ عدالت اس بات کا جائزہ لے گی کہ ٹویوٹا گاڑیوں کی ری سیل قدر میں حالیہ کمی کا ذمہ دار کون ہے؟ گاڑیوں کے مالکان؟ یا اس کی ذمہ دار خود ٹویوٹا کمپنی ہے،جس کی وجہ غیرذمہ دارانہ اور ناقص کارکردگی کے باعث اس کی شہرت کوپہنچنے والا نقصان ہے۔
نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر ٹم ہاورڈ وکلا کی ایک ایسی ٹیم کی قیادت کررہے ہیں جسکی کوشش ہے کہ تما م متفرق مقدمات کو ایک کلاس ایکشن مقدمے میں تبدیل کردیا جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ نقصانات کا تخمینے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان دعووں میں تقریبا 80 لاکھ کاریں شامل ہیں۔ اگر ایک کار کا نقصان ایک ہزار ڈالر ہوا ہے تو اس طرح ٹویوٹا کمپنی پر تقریبا آٹھ ارب ڈالر کا ہرجانہ کیا جاسکتا ہے۔
نیشنل ہائی وے ٹریفک سیفٹی کمیشن نے ٹویوٹا گاڑیوٕں میں ایکسلیٹر کی خرابی کو 150 اموات کا ذمہ دار ٹہرایا ہے۔جبکہ ٹویوٹا کا کہنا ہے کہ اسکا تعلق فلور میٹس اور خراب گیس پیڈل سے ہے۔
وکٹر انیڈری اون کلاس ایکشن مقدمے میں ایک متوقع مدعی ہیں۔انکا کہنا ہے کہ ٹویوٹا نے انکے پورے خاندان کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا تھا کیونکہ کمپنی نے حفاظتی اصولوں کا خیال نہیں رکھا۔
وہ کہتے ہیں کہ لاس اینجلس میں میر ی بیٹی کے دو چھوٹے نواسے ہیں اور میرے بیٹے کا ایک ڈیڑھ سالہ بچہ ہے۔مجھے تشویش اس بات کی ہے کہ ٹویوٹا گاڑیوں میں نقائص کی تکنکی وجوہات کی خاطر خواہ تحقیقات نہیں کی گئی تھیں۔
سات ججوں کا ایک پینل اس مسئلے پر فیصلہ اگلے مہینے دےگا۔ٹویوٹا کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ عدالت میں موجود اس مقدمے پر کوئی تبصرہ نہیں کرے گی۔۔