ہماری والدہ جب بھی اپنی ساس یعنی ہماری دادی سے یہ سوال کرتیں کہ آج کیا پکے گا؟ تو جواب اکثر یہی ملتا، "ارے، ایک وقت کی ہانڈی ہے ہی کیا؟ دال روٹی، سالن اور چٹنی پیاز۔ اس کے لیے ہر روز کیا جتن اٹھانے؟"
شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں اچار کے ساتھ بھی روٹی کھالی جاتی تھی اور اچار نہ ہو تو ہری مرچ اور کچی پیاز سے بھی گزارا ہوجاتا تھا۔ کچھ لوگوں کو کیلے اور تربوز کے ساتھ بھی روٹی کھاتے دیکھا ہے۔ خاص کر بلوچستان میں تربوز کے ساتھ اور سندھ میں پکوڑوں کے ساتھ روٹی کھانے کا عام رواج تھا۔
اس دور کے کھانے بھی کیا ہوا کرتے تھے۔ نہایت سادہ دالیں یا بڑے گوشت کا سالن بنا لیا۔ جس میں آلو گوشت، لوکی گوشت، پالک گوشت یا ایسی ہی کسی اور سبزی کو گوشت میں ڈال لیا جاتا تھا اور وہ بھی ہفتے میں صرف ایک یا دو بار ہی۔ ورنہ بات دالوں اور سبزیوں سے آگے ہی نہیں بڑھتی تھی۔
مگر اب یہ باتیں اور رواج پر لگا کر اُڑ گئے۔ اب ایک وقت کے کھانے (یعنی ایک وقت کی ہانڈی) کے لیے ہزار جتن کرنے پڑتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سارے لوازمات اور جتن خوشی خوشی اور کسی حد تک فخریہ طور پر انجام دیے جاتے ہیں۔
زمانہ ماڈرن ہوا تو کھانے پکانے کے طریقے بھی بدل گئے۔ طریقے چھوڑیے، کھانوں میں اب وہ، وہ چیزیں ڈالی جاتی ہیں جن کا آج سے کچھ سال پہلے تک کسی کو نام پتا تھا نہ ہی کوئی اس کا تصور کرسکتا تھا۔
اب کھانوں میں پتے، گھاس اور پھول بھی استعمال ہونے لگے ہیں۔ 'تیز پتا' تو پلاؤ کی یخنی میں دہائیوں سے استعمال ہوتا آیا ہے۔ لیکن جدید دور میں تلسی کے پتے اور چینی گھاس یعنی 'چائنا گراس' بھی بہت سی ڈشیز کا حصہ بن گئے ہیں۔
چائنا گراس کسی بھی محلول کو جمانے کے لیے کارگر سمجھی جاتی ہے جب کہ تلسی کے پتوں کا رواج قدرے نیا ہے۔ ہاں اس کے مقابلے میں کسی دور میں مولی اور اروی کے پتوں کا بھی سالن بنا کرتا تھا۔ اسی طرح اب بہت سے جدید کھانوں حتیٰ کہ چائے میں بھی بادیان کے پھول استعمال ہوتے ہیں۔
پہلے برِ صغیر میں مشروم کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ مگر اب بہت سے پکوانوں کے لیے مشروم لازمی ہوگئی ہے۔ اب بڑے گروسری اسٹورز کے علاوہ گلی محلوں میں پھرنے والے ٹھیلوں پر بھی مشروم فروخت ہوتی ہے۔
نئے زمانے میں ساسز کا ڈھیر سا لگا ہے۔ اب درجنوں قسم کی ساسز مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ جیسے سویا ساس، فش ساس، ووسٹرشائرساس، اوئسٹر ساس اور تھائی فش ساس وغیرہ۔
پہلے اماں، دادی اور نانی کے منہ سے عام نمک کے علاوہ کسی اور نمک کا نام سنتے تھے تو وہ صرف کالا نمک تھا۔ مگر اب درجن بھر نمک دستیاب ہیں۔ جن میں پنک سالٹ، حب سالٹ، آئیو ڈائزڈ سالٹ، ٹی سالٹ، ہمالین سالٹ، گرے سالٹ، سی سالٹ یا سمندری نمک، فلیک سالٹ، بلیک لاوا سالٹ، ریڈ سالٹ، اسموک سالٹ اور پکنگ سالٹ شامل ہیں۔ گویا جیسا چاہیں نمک استعمال کریں۔ اقسام کی اب کوئی کمی نہیں۔
یہی حال گھی کا ہے۔ پہلے دانے دار گھی کا استعمال عام بات تھی۔ مگر اب گھی کا استعمال متروک ہوتا جارہا ہے۔ جب کہ خالص گھی سے نوجوان نسل کو بو آتی ہے۔ اس لیے زیتون آئل، سویابین آئل اور کوکونٹ آئل کا استعمال شروع ہوگیا ہے۔
کبھی سرسوں کے تیل میں بھی کھانے پکا کرتے تھے۔ مگر اب سرسوں کا تیل سر تک میں نہیں ڈالا جاتا کہ اس میں بھی نئی نسل کو عجیب سی بو آتی ہے۔
آج متمول گھرانوں کے علاوہ متوسط طبقے میں بھی پنیر کا استعمال بڑھ گیا ہے اور اب اس کی بھی ایک دو نہیں کئی اقسام دستیاب ہیں۔
پہلے ایک ہی قسم کا مکھن آیا کرتا تھا۔ مگر اب جدید کھانوں میں بٹر، سالٹڈ بٹر اور پینٹ بٹر کا استعمال بھی عام ہوگیا ہے۔
اب 'سِل بٹے' اور 'ہاون دستہ' جانے کہاں گم ہوگئے ہیں۔ ورنہ تمام چٹنیاں اور مصالحے اسی پر پیسے جاتے تھے۔ اب مسالے بھی سیکڑوں قسم کے آگئے جو نہایت دلکش ڈبوں میں پیک ہوتے ہیں۔ جب کہ پسے پسائے لہسن اور ادرک کے ساتھ ساتھ ٹومیٹو پیوری اور ٹومیٹو پیسٹ بھی آگئے ہیں۔ گویا ٹماٹر کو بھی اب کاٹنے اور پیسنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ اس کے ٹن پیک ہر جگہ فروخت ہونے لگے ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ پیاز بھی بھوننے کی ضرورت نہیں۔ اس کا بھی پیکٹ آپ کو سپر اسٹور کی لمبی چوڑی الماریوں اور کاؤنٹرز پر مل جائے گا۔
نمکین کھانوں کے ساتھ ساتھ میٹھے پکوانوں کا ذائقہ بھی اب سیل بند ڈبوں میں ہے۔ کھیر بنائیں، شیر خورمہ بنائیں یا سوئیاں۔ سب کے پیکٹ دستیاب ہیں۔ پھر جب سے کھانوں میں انناس، کیلے، گریپ فروٹ، کوکونٹ، موسمی کی چھال، انگور اور اسی قسم کے کئی پھلوں کا استعمال بڑھا ہے، یہ تمام بھی ٹِن پیک میں دستیاب ہیں۔ بھلے ان پھلوں کا موسم ہو یا نہ ہو۔
جب سے چائنیز کھانے عام ہوئے ہیں، ساسز کا رواج عام ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر ہر روز کھانوں کی ڈھیروں ریسپیز دیکھ دیکھ کر لوگوں میں ان چیزوں کا استعمال بڑھ گیا ہے۔
خواتین اور بچیوں میں میڈیا پر ان ریسپیز یا پکوان کی ترکیبوں کو دیکھ کر کھانا پکانے کے ذوق و شوق میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اس کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ جب تک کچن میں یہ تمام لوازمات موجود نہ ہوں، کھانے پکانے کی نئی نئی شوقین بچیاں کچن میں پھٹکتی بھی نہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جو ہانڈی پہلے 50 یا 60 روپے میں بن جاتی تھی۔ ان لوازمات اور جتن کے سبب اس کی لاگت اب سیکڑوں اور ہزاروں تک جاپہنچی ہے۔