پشاور میں ایک اور خواجہ سرا کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا ہے جس کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں اور خواجہ سراؤں نے حکومت سے اُنہیں تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایک ہفتے کے دوران پشاور مردان اور مانسہرہ میں فائرنگ کے مختلف واقعات میں دو خواجہ سرا ہلاک اور متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔
جمعے کی شام پشاور کے وسطی علاقے جھنگی محلہ میں ناصر عرف نانو نامی خواجہ سرا کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا جب کہ اس سے قبل جمعرات کو مردان میں بھی نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک خواجہ سرا جان کی باز ہار گیا تھا۔
خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم قمر نسیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مردان واقعہ میں خواجہ سراؤں کے ایک ڈیرے کو نشانہ بنایا گیا تھا اور ان کےبقول ا س میں چاند نامی خواجہ سرا ہلاک ہوا۔
فائرنگ کے بعد ریسکیو اہل کاروں نے موقع پر پہنچ کر ہلاک ہونے والے خواجہ سرا کی نعش اور زخمی خواجہ سرا کو مردان کے باچاخان میڈیل کمپلیکس میں منتقل کیا۔
مردان پولیس نے مقدمہ درج کر کے اس واقعہ کی تفتیش شروع کر دی ہے۔ پولیس عہدیدار عدنان اعظم نے جمعے کے روز پریس کانفرنس سے خطاب میں دو ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پولیس حکام نے زخمی ہونے والے خواجہ سرا کے حوالے سے بتایا ہے کہ خواجہ سراؤں کے ڈیرے پر تین افراد نے فائرنگ کی جس کے بعد وہ موقع سے فرار ہو گئے۔
خیبر پختونخوا کے شمالی ضلع مانسہرہ میں بھی چند روز قبل ایک شخص نے فائرنگ کر کے پانچ خواجہ سراؤں کو زخمی کر دیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے ایک زخمی خواجہ سرا کو ابتدائی طبی امداد کے بعد اسپتال سے فارغ کر دیا گیا لیکن پولیس کے مطابق چار خواجہ سرا ابھی اسپتال میں زیر ِعلا ج ہیں اور ان میں سے دو کی حالت تشوش ناک بتائی جاتی ہے۔
قمر نسیم نے بتایا کہ اس واقعہ میں ملوث دو ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں جب کہ پولیس نے مزید تفتیش اور قانونی کارروائی شروع کر دی ہے۔
فائرنگ سے زخمی ہونے والی خواجہ سرا نتاشا نے پولیس کو بتایا ہے کہ مبینہ ملزم بلال نے انہیں اپنے گھر کھانے کی دعوت دی تھی ۔ نتاشا کا کہنا ہے کہ ملزم نے اس وقت ان پر فائرنگ کی جب وہ اس کے گھر داخل ہو رہے تھے۔
پولیس کے مطا بق ملزم نتاشا کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ پولیس کا مزید کہنا ہے کہ کہ نتاشا اور بلال آپس میں دوست تھے لیکن بعد ازاں دونوں کے درمیان بعض معاملات پر اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔
انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تیمور کمال کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر خیبر پختونخوا میں 10 دنوں میں تین خواجہ سرا قتل اور پانچ زخمی ہوئے۔
خواجہ سراؤں کے تحفظ کے لیے قائم کردہ کمیٹی کے رکن قمر نسیم کہتے ہیں کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات باعثِ تشویش ہیں۔ قمر کہتے ہیں کہ خواجہ سراؤں کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات کے فقدان کی وجہ سے ان کے خلاف تشدد بڑھ رہا ہے۔
وائس آف امریکہ کے سے بات کرتے ہوئے قمر نسیم نے کہا کہ خواجہ سراؤں کے تحفظ کے لیے ہونے والی قانون سازی کے باوجود ان کے بقول عملی اقدمات ہونا ابھی باقی ہیں۔
خواجہ سراؤں کی تنظیم کی صوبائی صدر فرزانہ خان نے خواجہ سرا افراد کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فرزانہ خان کا کہنا تھا کہ 2015 سے اب تک تشدد کے واقعات میں صرف خیبرپختونخوا میں 90 خواجہ سرا قتل جب کہ دو ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
قمر نسیم کہتے ہیں کہ خواجہ سراؤں کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ خواجہ سراؤں کو نفرت انگیز سماجی رویوں کا بھی سامنا ہے اور دوسری جانب خواجہ سرا برداری کے اپنے تحفظ سے متعلق خدشات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔
قمر نسیم کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا حکومت نے خواجہ سراؤں کی حالتِ بہتر بنانے کے لیے 20 کروڑ روپے کا ایک فنڈ مختص کر چکی ہے۔