پاکستان میں ادویات کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والے خام مال پر 17 فی صد ٹیکس عائد کرنے پر دوا ساز کمپنیوں نے فیکٹریاں بند کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔
ادویات ساز کمپنیوں کے مطابق اگر حکومت نے ٹیکس واپس نہ لیا تو وہ احتجاج کرنے پر مجبور ہوں گے۔
کمپنیوں کو خدشہ ہے کہ فارماسوٹیکل کا شعبہ موجود حالات میں 17 فئ صد ٹیکس دینے کا متحمل نہیں ہو سکتا، لہذٰا اس فیصلے سے ادویات کی دستیابی متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی قیمتوں میں بھی مزید اضافہ ہو گا۔
خیال رہے کہ حکومتِ پاکستان نے کچھ عرصہ قبل منی بجٹ کی منظوری دی تھی جس میں ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال سمیت سینکڑوں اشیا پر دی گئی ٹیکس چھوٹ ختم کر دی تھی۔
'ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا'
پاکستان میں مقامی ادویات ساز کمپنیوں کی نمائندہ تنظٰم پاکستان فارماسوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین حامد رضا سمجھتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال سے ادویات کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ پاکستان میں ادویات کی تیاری پر سیلز ٹیکس اِس سے پہلے کبھی عائد نہیں کیا گیا۔ اُنہوں نے حکومت کو پانچ روز کا الٹی میٹم دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ یہ ٹیکس فوری طور واپس لیا جائے۔
اُن کا کہنا تھا کہ احتجاج کی صورت میں اُن کی تنظیم پاکستان بھر میں ادویہ ساز کارخانے بند بھی کر سکتی ہے۔
پاکستان میں غیر ملکی ادویہ ساز کمپنیوں کی نمائندہ فارما بیورو کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر عائشہ ٹمی حق، حامد رضا سے متفق ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ادویہ ساز کمپنیاں اس ٹیکس کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ حکومت کہتی ہے کہ وہ سیلز ٹیکس ریفنڈ دینے کو تیار ہیں، لیکن ادویہ ساز اداروں کی شرط ہے کہ یہ ریفنڈ خام مال کی خریداری پر دیا جائے نہ کہ ادویات کی مکمل تیاری کے بعد دیا جائے۔
اُن کے بقول اس حکومتی فیصلے سے ادویات ساز کمپنیوں کو مالی نقصانات ہوں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ بہت سی ایسی ادویات ہیں جن کا خام مال سال میں ایک مرتبہ آتا ہے۔
منی بجٹ اور ٹیکس چھوٹ ختم کرنے پر حکومت نے تخمینہ لگایا تھا اس سے سالانہ 343 ارب روپے قومی خزانے میں آئیں گے۔
چیئرمین حامد رضا کے مطابق اُن کی تنظیم کی اِس سلسلے میں پاکستان کے وزیرِِ خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر سے کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں، لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔
اُن کے بقول حکومت کی طرف سے یہ جواب سننے کو ملتا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے وہ مجبور ہیں۔
عائشہ ٹمی حق کہتی ہیں کہ اِس سلسلے میں اُن کی تنظیم کئی حکومتی نمائندوں سے مل چکی ہے۔ جن میں چیئرمین ایف بی آر اور وزیرِ خزانہ بھی شامل ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ حکومت ٹیکس ریفنڈ کرنے کو تیار ہے لیکن وہ خام مال پر نہیں بلکہ ادویات کی مکمل تیاری کی صورت میں جائے گا۔ جو ادویہ ساز اداروں کو قابلِ قبول نہیں ہے۔
حکومت سے ہونے والے مذاکرات کے بارے اُنہوں نے مزید بتایا کہ حکومت کہتی ہے کہ وہ ادویہ ساز اداروں کو بینکوں سے بغیر سود کے قرضہ دلانے کو تیار ہے، لیکن اُنہیں خدشہ ہے کہ حکومت کی مالی حیثیت کمزور ہے، وہ ایسا نہیں کر پائے گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ادویات سازی ایک بڑی صنعت ہے۔ جس کو پاکستان کی حکومت آئی ایم ایف کی جانب سے عائد کردہ شرائط کے مطابق دستاویزات کی صورت میں یعنی ڈاکیومنٹ کرنا چاہتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ادویات ساز ادارے سیلز ٹیکس دینے کو تیار ہیں لیکن اُن کی ایک ہی شرط ہےکہ ٹیکس ریفنڈ 10 سے 15 دِنوں میں دیا جائے۔
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے حکام سے رابطہ کیا تو دو دستیاب نہیں ہو سکے۔
حامد رضا بتاتے ہیں کہ پاکستان میں زیادہ تر ادویات میں استعمال ہونے والا خام مال بھارت اور چین سے آتا ہے۔ اُن کے مطابق ادویات میں تقریباً 1200 اقسام کے سالٹ یا کیمیکل استعمال ہوتے ہیں۔
یاد رہے پاکستان میں گزشتہ سال مختلف ادویات کی قیمتوں میں 10 سے 30 فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔