حکومتِ پاکستان نے خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق'ٹرانس جینڈر پرسنز ایکٹ 2018' میں جماعتِ اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کی پیش کردہ ترمیم کی حمایت کا عندیہ دیا ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں وفاقی وزیرِ قانون نے کہا کہ جب قانون پاس ہوتا ہے تو بعض اوقات اس میں کوئی نہ کوئی سقم رہ جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس قانون کی شق دو اور تین پر جو اعتراضات سامنے آئے تھے اس کے بعد آنے والی ترامیم پر وفاقی حکومت غور کر ہی رہی تھی کہ یہ معاملہ وفاقی شریعت کورٹ میں چلا گیا اور اب ان کے بقول شریعت کورٹ جو فیصلہ کرے گی وہ حتمی ہوگا۔
وفاقی وزیر کا کہناتھا کہ حالیہ چند ہفتوں کے دوران 'ٹرانس جینڈر ایکٹ' سے متعلق ایسی خاکہ کشی کی گئی کہ جیسے یہ مکمل طور پر غلط ہے لیکن درحقیقت اس قانون کے ذریعے خواجہ سرا کمیونٹی کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
پریس کانفرنس میں وزیرِ اعظم کے مشیر برائے امورِ کشمیر اور پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے سینیٹر مشتاق احمد خان کی جانب سے پیش کردہ ترامیم کو حوصلہ افزا قرار دیتے ہوئے کہا کہ ٹرانس کمیونٹی سمیت سب چاہتے ہیں کہ اس قانون کا غلط استعمال نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ قانون میں سقم کو دور کرنے کے لیے جو ترمیم پیش کی گئی ہے وہ منظور ہونی چاہیے۔
وفاقی حکومت کا یہ مؤقف ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب گزشتہ چند ہفتوں سے ملک میں ٹرانس جینڈر ایکٹ پر زور و شور سے بحث جاری ہے اور مذہبی حلقے اس قانون کے غلط استعمال کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ سن 2018 میں پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے 'ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ' میں ٹرانس جینڈر افراد کی تعریف متعین کرنے اور انہیں شناختی دستاویزات کے اجرا کے ساتھ ساتھ ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا گیا تھا اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کو قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا تھا۔
لیکن گزشتہ چند ہفتوں سے پاکستان میں مذہبی حلقے یہ الزام لگا رہے ہیں کہ یہ ایکٹ ملک میں بے راہ روی پھیلانے کا باعث بن رہا ہے اور اس کے نتیجے میں ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ البتہ انسانی حقوق کے کارکن اور ٹرانس کمیونٹی کے لیے آواز بلند کرنے والے رہنما اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کا خیال ہے کہ 'ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018' کو دانستہ متنازع بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ٹرانس جینڈر ایکٹ پر حالیہ بحث کا آغاز جماعتِ اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کے اس بیان سے ہوا تھا کہ اس قانون کے تحت 'نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) جولائی 2018 سے جون 2021 تک 28 ہزار سے زائد افراد کے شناختی کارڈز پر ان کی جنس تبدیل کر چکا ہے۔
سینیٹر مشتاق کے مطابق انہوں نے اس بارے میں وزارتِ داخلہ سے سوال کیا تھا جس پر نادرا نے یہ ڈیٹا سینیٹ سیکریٹریٹ کو جمع کرایا۔ یہ اعداد و شمار سامنے آنے کے بعد سینیٹر مشتاق کے بقول انہوں نے اس قانون میں بعض ترامیم تجویز کی ہیں جن پر پانچ ستمبر کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے بحث بھی کی تھی۔
SEE ALSO: 'اصلی نقلی کو چھوڑیے، کوئی ایک خواجہ سرا سامنے لائیں جس کی آپ عزت کرتے ہوں'سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اس اجلاس کے بعد جماعتِ اسلامی نے 17 ستمبر کو ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف وفاقی شرعی عدالت میں درخواست دائر کی۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پاکستان میں شریعت سے متصادم کوئی بھی قانون متعارف نہیں کرایا جا سکتا اور کیوں کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کی بعض شقیں خلافِ شریعت ہیں لہٰذا ان میں ترمیم ناگزیر ہے۔
وفاقی شرعی عدالت نے رواں ہفتے جماعتِ اسلامی کی درخواست کی ابتدائی سماعت کی تھی۔ تاہم اس ایکٹ سے متعلق سوشل میڈیا پر گزشتہ چند ہفتوں سے مختلف ٹرینڈز چل رہے ہیں اور اس ایکٹ کے خلاف اور حمایت میں بحث شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ کیا ہے؟
ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ میں خواجہ سراؤں کو پاکستان کے دیگر شہریوں کی طرح تعلیم، روزگاراور صحت کی یکساں سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانے کےساتھ ساتھ انہیں وراثت کا بھی حق دار قرار دیا گیا ہے۔اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کو جرم قرار دیا گیا ہے۔
اس ایکٹ میں خواجہ سراؤں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ جب وہ 18 سال کی عمر کو پہنچیں تو اپنی جنس کا خود تعین کر کے اسے سرکاری ریکارڈ میں تبدیل کرا سکتے ہیں۔ تمام سرکاری اداروں کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ خواجہ سرا جو شناخت چاہیں، وہی ان کے شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ پر درج کی جائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ٹرانس جینڈر ایکٹ میں خواجہ سرا کی تین طرح سے تعریف کی گئی ہے۔ پہلے نمبر پر وہ افراد ہیں جن کی جنس میں پیدائشی طور پر ابہام ہو یعنی ان میں مرد اور عورت دونوں کے اعضائے مخصوصہ یا خصوصیات پائی جائیں۔
دوسری تعریف میں ایسے افراد شامل ہیں جو پیدائشی مرد ہوں لیکن بعد میں جنس کی تبدیلی کے عمل سے گزریں۔ تیسری قسم میں وہ افراد شامل ہیں جو اپنی پیدائش کے وقت دی گئی شناخت یا صنف سے خود کو مختلف سمجھتے ہوں۔
'ایکٹ کے خلاف نہیں بس کچھ ترامیم چاہتے ہیں'
جماعتِ اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کہتے ہیں کہ وہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف نہیں بلکہ انہیں ٹرانس جینڈر ایکٹ کی صرف ان دو شقوں پر اعتراض ہے جس میں ٹرانس جینڈرز کی تعریف کی گئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قانون میں مذکور ٹرانس جینڈر کی تعریف کا دوسرا اور تیسرا حصہ قابلِ اعتراض ہے۔ان کے بقول وہ مرد جو کسی وجہ سے اپنے جسم میں تبدیلی کرا لیتے ہیں انہیں ٹرانس جینڈر نہیں کہا جا سکتا۔
ان کے بقول اپنی جنس کا تعین نہ کرپانے والے مکمل مرد اور مکمل خواتین کوشناختی دستاویزات میں اپنی مرضی کی جنس لکھوانے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا تا وقتیکہ کوئی میڈیکل بورڈ ان کی تبدیلیٔ جنس کی تصدیق نہ کرے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سینیٹر مشتاق نے کہا کہ اسی لیے انہوں نے ایسے افراد کی تبدیلیٔ جنس کے تعین کے لیے اپنی ترامیم میں طبی معائنہ کرانے کی سفارش کی ہے کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ کسی مکمل مرد اور عورت کی جانب سے اپنی جنس سے متعلق غیر یقینی کا شکار ہونا طبی سے زیادہ نفسیاتی مسئلہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کہ ان کا تجویز کردہ ترمیمی بل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں زیرِ بحث ہے اور اس پر اکتوبر میں ہونے والے اجلاس کے دوران ووٹنگ ہو گی۔
سینیٹر مشتاق کا کہنا تھا کہ 'نادرا' کی جانب سے سینیٹ کو فراہم کی گئی معلومات کے مطابق جولائی 2018 سے جون 2021 کے دوران 16 ہزار 530 مرد 'نادرا' کے ریکارڈ میں اپنی جنس تبدیل کرا کے عورت بن چکے ہیں جب کہ 12 ہزار 154 خواتین نے اپنی جنس تبدیل کر کے مرد کے طور پر اندراج کرا لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اپنی مرضی سے صنفی شناخت اختیار کرنا نہ صرف شریعت بلکہ پاکستانی معاشرے کی روایات کے بھی خلاف ہے اس لیے میڈیکل بورڈ کی رائے کے بغیر کسی کو بھی جنس تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
طبی معائنے پر اعتراض
لیکن ٹرانس کمیونٹی کے حقوق کے لیے سرگرم رضاکار ذعنایہ چودھری اپنی کمیونٹی کے افراد کی شناخت کے تعین کے لیے طبی معائنے جیسی شرائط کو ٹرانس جینڈر کے حقوق کے خلاف سمجھتی ہیں۔
ذعنایہ چودھری کے بقول جب معاشرے میں مرد اور عورت کو اپنی شناخت کے لیے طبی معائنے کے لیے مجبور نہیں کیا جاتا تو ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے ساتھ اس معاملے پر امتیازی سلوک برتنے پر کیوں زور دیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا بِل کا بنیادی مقصد ٹرانس کمیونٹی کا تحفظ ہے اور اسے ہم جنس پرستی سے جوڑ کر اس قانون کو متنازع بنایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ اس بات پر خوش ہیں کہ کم از کم اس قانون میں ٹرانس جینڈرز کو انسان تو تسلیم کیا گیا ہے اور اس ایکٹ سے ان کی کمیونٹی کی امیدیں وابستہ ہیں۔ لیکن ان کے بقول پریشان کن بات یہ ہے کہ ابھی اس ایکٹ پر مکمل طور پر عمل درآمد بھی نہیں ہوا کہ اس پر اعتراضات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔
'ایکٹ، پارلیمنٹ نے جلدبازی میں منظور کیا'
ٹرانس جینڈر ایکٹ پر رواں سال مئی میں اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی تشویش کا اظہار کیا تھا اور اس میں بعض تبدیلیوں کی سفارش کی تھی۔
اس بارے میں کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز کا کہنا ہے کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ میں گرے ایریا موجود ہے اور اصل مسئلہ احساس کی بنیاد پر کسی کو شناخت دینے کا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ کسی مرد کو صرف اس بنیاد پر عورت قرار دے دیا جائے کہ وہ ایسا محسوس کرتا ہے تو اس عمل سے ہم جنس پرست شادیوں کا دروازہ کھل سکتا ہے اور ایسا کرنے سے وراثت کے شرعی اور ملکی قوانین پر عمل درآمد بھی مشکل ہو جائے گا۔
SEE ALSO: خیبر پختونخوا: 33 خواجہ سراؤں میں 'ایچ آئی وی' کی تصدیقاس سوال پر کہ جب یہ قانون منظور ہو رہا تھا اس وقت کونسل نے اعتراض کیوں نہیں اٹھایا، قبلہ ایاز نے کہا کہ وزارتِ قانون نے ٹرانس جینڈر ایکٹ پر کونسل سے کوئی مشاورت نہیں کی تھی اور جلد بازی میں اسے پارلیمنٹ سے منظور کرایا گیا تھا۔ تاہم اب کونسل نے اس قانون سے متعلق اپنی سفارشات پیش کر دی ہیں۔
'ٹرانس جینڈرز ایکٹ اسلامی اصولوں کے خلاف نہیں'
تاہم انسانی حقوق کی سرگرم کارکن اور ماہرِ قانون حنا جیلانی کہتی ہیں کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ قطعی طور پر نہ تو اسلامی اصولوں کے خلاف ہے اور نہ ہی اس ایکٹ میں ایسی کوئی شق ہے جس سے معاشرے میں کسی قسم کا کوئی بگاڑ پیدا ہونے کا خدشہ ہو۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے حنا جیلانی نے کہا کہ 2018 کے ایکٹ سے قبل ملکی قوانین میں ٹرانس جینڈرز کی کوئی تعریف متعین نہیں تھی اور سپریم کورٹ نے بھی 2012 میں اپنے ایک فیصلے میں حکومت کو ہدایت کی تھی کہ ملک میں خواجہ سرا کمیونٹی کے حقوق کو یقینی بنایا جائے۔ اب جب ایک قانون پارلیمنٹ سے منظور ہو چکا ہے اور ایک کمزور طبقے کو شناخت مل گئی ہے تو اس پر اعتراض اٹھانا سمجھ سے بالاتر ہے۔
ان کے بقول جو لوگ ٹرانس جینڈر ایکٹ کی مخالفت کر رہے ہیں انہوں نے کبھی کمزور طبقات اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند نہیں کی۔
اس ایکٹ پر ہونے والی تنقید پر ماہرِ قانون ریما عمر کہتی ہیں کہ جنسی شناخت اور جنسی رجحان دو الگ معاملات ہیں جنہیں بد دیانتی اور موقع پرستی کے تحت خلط ملط کیا جا رہا ہے۔
ٹوئٹر پر ایک تھریڈ میں ریما عمر نے کہا کہ مذکورہ ایکٹ میں شادی سے متعلق کوئی شق نہیں ہے جب کہ اس قانون کا ہم جنس پرستی یا ہم جنس تعلقات سے بھی کوئی لینا دینا نہیں۔
ریما عمر کے بقول ٹرانس جینڈر ایکٹ نو آبادیاتی دور کے جابرانہ قوانین اور ذہنیت ختم کرنے کی ایک کوشش ہےاور اس لیے مذہبی جماعتوں سمیت سب کو اس قانون کی حمایت کرنی چاہیے۔
البتہ مذہبی سیاسی جماعتوں کے کارکن اور رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ وہ پورے قانون کے خلاف نہیں بلکہ اس میں درج ٹرانس جینڈر کی تعریف میں تبدیلی چاہتے ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی مئی 2022 میں اس قانون میں تبدیلی کے لیے جو سات نکاتی سفارشات پیش کی تھیں جن کا بیشتر حصہ قانون میں کی جانے والی ٹرانس جینڈرز کی تعریف کے بارے میں ہی ہے۔
کونسل نے اپنی سفارشات میں کہا تھا کہ ایکٹ میں بیان کردہ خواجہ سرا کی تعریف شرعی طور پر قابلِ اعتراض امور پر مشتمل ہے جب کہ اس میں کئی تیکنیکی خامیاں بھی پائی جاتی ہیں۔
کونسل کے مطابق ٹرانس جینڈر ایکٹ میں کی گئی خواجہ سرا کی تعریف کی رو سے کئی ایسے افراد بھی جو خواجہ سرا نہیں ہیں ٹرانس جینڈر کے زمرے میں شامل ہو جاتے ہیں اور یہ تعریف بالواسطہ خود کو نامرد بنانے کے عمل کو بھی قانونی جواز فراہم کرتی ہے جس کی شریعت میں ممانعت ہے۔
دوسری جانب ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ نے ایک کمیونٹی کو موقع دیا ہے کہ وہ اپنے مسائل کو بیان کر سکیں۔ لیکن لگتا ہے کہ کچھ لوگوں نے قانون کی غلط تشریح کر کے عوام میں غلط تاثر قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔
پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر وفاقی شرعی عدالت میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف زیرِ سماعت درخواست میں فریق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ سے منظور شدہ کسی قانون سے متعلق ماضی میں اتنی غلط فہمیاں نہیں پھیلائی گئیں جتنی ٹرانس جینڈر ایکٹ کے بارے میں پھیلا دی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک ستائی ہوئی کمیونٹی کے بنیادی حقوق کو کالعدم کرنے کے بجائے بے بنیاد مفروضوں کا قلع قمع کرنے کے لیے مکالمے کی ضرورت ہے۔
'ٹرانس جینڈر ایکٹ سے اصل خواجہ سرا متاثر ہوں گے'
ٹرانس جینڈر حقوق کی کارکن الماس بوبی بھی وفاقی شرعی عدالت میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف زیرِ سماعت درخواست میں فریق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ سے ان کی کمیونٹی کے افراد کے بجائے دیگر لوگ فائدہ اٹھائیں گے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے الماس بوبی کا کہنا تھا کہ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو بنیادی حقوق کی فراہمی ریاست کی ذمے داری ہے۔ لیکن انہیں خدشہ ہے کہ ان کی کمیونٹی ٹرانس جینڈر ایکٹ کے فوائد سے محروم ہی رہے گی۔
ان کے بقول ملک میں اصل ٹرانس جینڈر کی تعداد مٹھی بھر ہے لیکن وہ لوگ جو شوقیہ اپنی جنس تبدیل کرانا چاہتے ہیں، اس قانون کے تحت ان کی تبدیلیٔ جنس کو بھی قانونی تحفظ مل گیا ہے۔
الماس بوبی نے شکوہ کیا کہ ٹرانس جینڈرز کو جسم فروشی کے ساتھ نتھی کر دیا گیا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جسم فروشی کے بیشتر واقعات میں مرد ہی ٹرانس جینڈر بن کر ان کی کمیونٹی کو بدنام کرتے ہیں۔
ٹرانس جینڈر کی تعریف اور ایکٹ میں ترامیم سے متعلق جماعتِ اسلامی کی درخواست پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی رواں برس اکتوبر میں ووٹنگ کرے گی۔ اگر کمیٹی ان ترامیم کو منظور کر لیتی ہے تو پھر اسمبلی میں ایک مرتبہ پھر ٹرانس جینڈر ایکٹ پر بحث کا امکان ہے۔ جب کہ وفاقی شرعی عدالت نے اس معاملے کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی ہے۔