امریکہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں اُس کے سفارت کاروں پر” سفری پابندیوں“ کا معاملہ دونوں حکومتوں کے درمیان زیر بحث ہے اور اس مسئلے کو جلد حل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
منگل کی شب اسلام آباد میں پاکستانی رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کے بعد افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکی صدر کے خصوصی ایلچی مارک گراسمن نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران امریکہ اور پاکستان کے تعلقات اُتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔
”امریکی سفارتکاروں کو سفری آزادی حاصل ہے البتہ حکومت پاکستان کے کچھ قواعد وضوابط اور تقاضے ہیں جن پر عمل درآمد کی راہ ڈھونڈنے کے لیے بات چیت جاری ہے۔“ گراسمن نے کہا کہ اُنھیں پورا یقین ہے کہ اس معاملے کا ایسا حل تلاش کیا جاسکتا ہے جس سے پاکستانی حکومت کے قواعد وضوابط کے تقاضے بھی پورے ہوں اور امریکی سفارت کاروں کو آزادی سے ملک کے اندر سفر کرنے کی اجازت بھی حاصل ہو۔
تاہم اُن کا کہنا تھا کہ دونوں ملک اُن اُمور کی نشاندہی کرنے کے عزم پر قائم ہیں جہاں دونوں کے مفادات مشترک ہیں اورجن پر مشترکہ طور پر عمل درآمد کیا جاسکتا ہے۔ امریکی ایلچی نے کہا کہ ان میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف جنگ دونوں ملکوں کے مشترکہ مفاد میں ہے۔
”ہمارا مشترکہ دشمن القاعدہ ہے اس لیے اس بارے میں کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ القاعدہ کو ختم کرنے کے لیے پاکستان اور امریکہ کو مشترکہ کوششیں کرنی ہوں گی تاکہ پاکستانی اور امریکی عوام اور دنیا کے دیگر خطوں میں لوگو ں کو زیادہ تحفظ ملے ۔“
دو مئی کو ایبٹ آباد میں اُسامہ بن لادن کے خلاف خفیہ امریکی آپریشن کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ بظاہر تعلقات میں اسی تناؤ کےباعث پاکستانی حکام نے حالیہ دنوں میں متعدد بار امریکی سفارت کارروں کو پشاور کا سفر کرنے سے باز رکھا ہے اور اُن کا موقف رہا ہے کہ ان افراد کے پاس ضروری سفری دستاویزات نہیں تھیں۔ لیکن اطلاعات کے مطابق یہ اقدامات ملک میں موجود امریکی سفارتکاروں کے سفر پر نئی پابندیوں کاحصہ تھے۔
تاہم پاکستانی دفتر خارجہ نے ایک بیان میں امریکیوں پر سفری پابندیاں لگانے کے تاثر کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ غیر ملکی سفارت کاروں کے لیے ملک میں طویل عرصے سے موجود قواعدوضوابط موجود ہیں جن کا واحد کا مقصد اُن کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔