اب تھانوں کی حفاظت کی غرض سے کہیں ان کے گرد خندقیں کھودی جارہی ہیں تو کہیں کنکریٹ کی دیواریں کھڑی کی جارہی ہیں۔ کچھ تھانوں کے دروازوں پر آہنی بیرئیرز نصب کئے جارہے ہیں تو کچھ کو حساس ترین قرار دے کر ان پر بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے
کراچی —
کراچی میں دہشت گردی کی روز بہ روز بڑھتی ہوئی وارداتوں سے قانون کے محافظ بھی محفوظ نہیں رہے۔ اس لئے اب تھانوں کی حفاظت کی غرض سے کہیں ان کے گرد خندقیں کھودی جا رہی ہیں تو کہیں کنکریٹ کی دیواریں کھڑی کی جارہی ہیں۔ کچھ تھانوں کے دروازوں پر آہنی بیرئیرز نصب کئے جارہے ہیں، تو کچھ کو حساس ترین قرار دے کر ان پر بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے۔
دوسری جانب، متحدہ قومی موومنٹ نے عوام سے اپنے طور پر محلہ کمیٹیاں تشکیل دینے کی ہدایت کردی ہے جس کا مقصد ہر آنے جانے والے بھی نظر رکھنا ہے۔ ادھر سی پی ایل سی کے سابق سربراہ جمیل یوسف کا کہنا ہے کہ اس قسم کی خبروں سے شہر میں خوف کی فضاٴ قائم ہو رہی ہے جو مستقبل کے لحاظ سے اچھی نہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کو سرجانی ٹاوٴن کے رہائشی عمر نے بتایا کہ انہوں نے پچھلے ہفتے اپنے علاقے کے تھانے کے گرد کھدائی ہوتے ہوئے دیکھی تھی۔ پہلے وہ یہ سمجھے کہ شاید کوئی پائپ لائن وغیرہ ڈالی جارہی ہے۔ لیکن، دو یاتین دن بعد ہی جب انہوں نے تھانے کی دیوار سے کچھ فاصلے پر چیک پوسٹ تعمیر ہوتے دیکھی تو انہیں ان ’غیر معمولی سیکورٹی انتظامات‘ کا احساس ہوا۔ عمر کے بقول، سرجانی تھانے کے باہر چیک پوسٹ کی تعمیر کا کام مکمل ہوگیا ہے۔
دریں اثنا، سہراب گوٹھ تھانے کے گرد بھی اسی نوعیت کی خندقیں کھودے جانے کی اطلاعات ہیں۔ ادھر سے گزرنے والا ہر فرد اس کا مشاہدہ کرسکتا ہے۔
نمائندے کو پولیس کی جانب سے موصولہ اطلاعات کے مطابق، شہر کے دیگر تھانوں میں بھی اسی قسم کی خندقیں کھودے جانے کا منصوبہ ہے۔ ایک پولیس افسر جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی اپیل کی ہے، اُس کا کہنا ہے کہ کچھ تھانوں کے گرد کنکریٹ کی دیواریں کھڑی کی جارہی ہیں، جبکہ کچھ تھانوں کے داخلی دروازوں پر لوہے کی رکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہیں۔
پولیس افسر کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن تھانوں کے گرد خندقیں کھودی گئی ہیں انہیں اعلیٰ پولیس افسران کی جانب سے انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے اور ان پرخفیہ اداروں نے دہشت گردانہ حملوں کا خطرہ ظاہر کیا ہے۔ حساس تھانوں میں متذکرہ بالا دونوں تھانوں کے علاوہ گلشن معمار، سچل گوٹھ، سائٹ، لانڈھی، ابراہیم حیدری، پیرآباد، درخشاں، جمشید کوارٹرز، شرافی گوٹھ، قائدآباد، میمن گوٹھ، سعید آباد، اتحاد ٹاوٴن، ماڑی پور، مبینہ ٹاوٴن، بلوچ کالونی، اورنگی ٹاوٴن اور منگھوپیر کے تھانے شامل ہیں۔
چھ ماہ میں 460شہری اور سیکورٹی اہلکار ہلاک
سیکورٹی ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ستمبر 2013 ءسے فروری 2014ء تک 460 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں 308 شہری، 114 عسکری اور 38 پولیس اہلکار شامل ہیں، جبکہ زخمیوں کی تعداد ایک ہزار سے بھی زیادہ ہے۔
یار رہے کہ مئی 2013ء میں برسر اقتدار آنے والی ن لیگ کی حکومت نے 9ستمبر کو سیکورٹی کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی تھی، جس میں ملک بھر میں امن و امان کے قیام کے لئے طالبان سے مذاکرات کی غرض سے مشترکہ قرار داد منظور کی گئی تھی۔
محلہ کمیٹیاں قائم کی جائیں، ایم کیو ایم کا عوام کومشورہ
مذکورہ صورتحال میں کسی بھی سخت رد عمل سے محفوظ رہنے کے لئے متحدہ قومی موومنٹ نے کراچی کی عوام کو اپنے طور پر اپنے اپنے محلے میں کمیٹیاں تشکیل دینے کا مشورہ دیا ہے۔ پارٹی نے حکومت سے مذاکرات کے بعد اپنے تمام رہنماوٴں، پارلیمانی لیڈرز اور یونٹ و سیکٹر انچارجز کو محلہ کمیٹیاں تشکیل دینے کی ہدایات جاری کی ہیں جن کا مقصد آنے جانے والے انجان لوگوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور امن و امان کے لئے کوششیں جاری رکھنا ہے۔
پارٹی رہنما ناصر جمال کا کہنا ہے کہ محلہ کمیٹیاں تشکیل دینے کا ایک مقصد ’خود اپنی حفاظت آپ کرنا‘ بھی ہے۔ ایک اور رہنما اور قومی اسمبلی کی نشست این اے 251کے رکن علی رضا عابدی نے محمود آباد نمبر پانچ میں واقع 600سے زیادہ گھروں پر مشتمل 20 رکنی محلہ کمیٹی تشکیل دے کر اس کام کی ابتدا کردی ہے۔
محلہ کمیٹیوں میں ایسے نوجوانوں کو بھرتی کیا جارہا ہے جو جوان مگر بے روزگار ہیں۔ تاہم، کمیٹی کارکن بننے کے لئے متحدہ قومی موومنٹ کا رکن کا ہمدرد ہونا لازمی شرط نہیں۔ اس کام کے لئے مالی معاونت بھی محلے والوں سے ہی طلب کی جارہی ہے۔ یہ کمیٹیاں علاقہ رہائشوں کے باقاعدہ ریکارڈز بھی مرتب کررہی ہیں۔ علی رضا عابدی کے مطابق محلہ کمیٹیوں کو کسی بھی قسم کا کوئی اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
دوسری جانب، متحدہ قومی موومنٹ نے عوام سے اپنے طور پر محلہ کمیٹیاں تشکیل دینے کی ہدایت کردی ہے جس کا مقصد ہر آنے جانے والے بھی نظر رکھنا ہے۔ ادھر سی پی ایل سی کے سابق سربراہ جمیل یوسف کا کہنا ہے کہ اس قسم کی خبروں سے شہر میں خوف کی فضاٴ قائم ہو رہی ہے جو مستقبل کے لحاظ سے اچھی نہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کو سرجانی ٹاوٴن کے رہائشی عمر نے بتایا کہ انہوں نے پچھلے ہفتے اپنے علاقے کے تھانے کے گرد کھدائی ہوتے ہوئے دیکھی تھی۔ پہلے وہ یہ سمجھے کہ شاید کوئی پائپ لائن وغیرہ ڈالی جارہی ہے۔ لیکن، دو یاتین دن بعد ہی جب انہوں نے تھانے کی دیوار سے کچھ فاصلے پر چیک پوسٹ تعمیر ہوتے دیکھی تو انہیں ان ’غیر معمولی سیکورٹی انتظامات‘ کا احساس ہوا۔ عمر کے بقول، سرجانی تھانے کے باہر چیک پوسٹ کی تعمیر کا کام مکمل ہوگیا ہے۔
دریں اثنا، سہراب گوٹھ تھانے کے گرد بھی اسی نوعیت کی خندقیں کھودے جانے کی اطلاعات ہیں۔ ادھر سے گزرنے والا ہر فرد اس کا مشاہدہ کرسکتا ہے۔
نمائندے کو پولیس کی جانب سے موصولہ اطلاعات کے مطابق، شہر کے دیگر تھانوں میں بھی اسی قسم کی خندقیں کھودے جانے کا منصوبہ ہے۔ ایک پولیس افسر جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی اپیل کی ہے، اُس کا کہنا ہے کہ کچھ تھانوں کے گرد کنکریٹ کی دیواریں کھڑی کی جارہی ہیں، جبکہ کچھ تھانوں کے داخلی دروازوں پر لوہے کی رکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہیں۔
پولیس افسر کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن تھانوں کے گرد خندقیں کھودی گئی ہیں انہیں اعلیٰ پولیس افسران کی جانب سے انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے اور ان پرخفیہ اداروں نے دہشت گردانہ حملوں کا خطرہ ظاہر کیا ہے۔ حساس تھانوں میں متذکرہ بالا دونوں تھانوں کے علاوہ گلشن معمار، سچل گوٹھ، سائٹ، لانڈھی، ابراہیم حیدری، پیرآباد، درخشاں، جمشید کوارٹرز، شرافی گوٹھ، قائدآباد، میمن گوٹھ، سعید آباد، اتحاد ٹاوٴن، ماڑی پور، مبینہ ٹاوٴن، بلوچ کالونی، اورنگی ٹاوٴن اور منگھوپیر کے تھانے شامل ہیں۔
چھ ماہ میں 460شہری اور سیکورٹی اہلکار ہلاک
سیکورٹی ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ستمبر 2013 ءسے فروری 2014ء تک 460 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں 308 شہری، 114 عسکری اور 38 پولیس اہلکار شامل ہیں، جبکہ زخمیوں کی تعداد ایک ہزار سے بھی زیادہ ہے۔
یار رہے کہ مئی 2013ء میں برسر اقتدار آنے والی ن لیگ کی حکومت نے 9ستمبر کو سیکورٹی کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی تھی، جس میں ملک بھر میں امن و امان کے قیام کے لئے طالبان سے مذاکرات کی غرض سے مشترکہ قرار داد منظور کی گئی تھی۔
محلہ کمیٹیاں قائم کی جائیں، ایم کیو ایم کا عوام کومشورہ
مذکورہ صورتحال میں کسی بھی سخت رد عمل سے محفوظ رہنے کے لئے متحدہ قومی موومنٹ نے کراچی کی عوام کو اپنے طور پر اپنے اپنے محلے میں کمیٹیاں تشکیل دینے کا مشورہ دیا ہے۔ پارٹی نے حکومت سے مذاکرات کے بعد اپنے تمام رہنماوٴں، پارلیمانی لیڈرز اور یونٹ و سیکٹر انچارجز کو محلہ کمیٹیاں تشکیل دینے کی ہدایات جاری کی ہیں جن کا مقصد آنے جانے والے انجان لوگوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور امن و امان کے لئے کوششیں جاری رکھنا ہے۔
پارٹی رہنما ناصر جمال کا کہنا ہے کہ محلہ کمیٹیاں تشکیل دینے کا ایک مقصد ’خود اپنی حفاظت آپ کرنا‘ بھی ہے۔ ایک اور رہنما اور قومی اسمبلی کی نشست این اے 251کے رکن علی رضا عابدی نے محمود آباد نمبر پانچ میں واقع 600سے زیادہ گھروں پر مشتمل 20 رکنی محلہ کمیٹی تشکیل دے کر اس کام کی ابتدا کردی ہے۔
محلہ کمیٹیوں میں ایسے نوجوانوں کو بھرتی کیا جارہا ہے جو جوان مگر بے روزگار ہیں۔ تاہم، کمیٹی کارکن بننے کے لئے متحدہ قومی موومنٹ کا رکن کا ہمدرد ہونا لازمی شرط نہیں۔ اس کام کے لئے مالی معاونت بھی محلے والوں سے ہی طلب کی جارہی ہے۔ یہ کمیٹیاں علاقہ رہائشوں کے باقاعدہ ریکارڈز بھی مرتب کررہی ہیں۔ علی رضا عابدی کے مطابق محلہ کمیٹیوں کو کسی بھی قسم کا کوئی اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔