|
تقریباً تین سال پہلے بھارت سے تعلق رکھنے والا ایک جوڑا اور ان کے دو چھوٹے بچے، شدید سردی میں کینیڈا کی سرحد عبور کرکے امریکہ داخل ہونے کی کوشش میں ٹھٹھر کر ہلاک ہو گئے تھے۔ انہیں سرحد عبور کرانے میں دو افراد کو پیر کے روز ایک مقدمے میں انسانی اسمگلنگ کے ایک عالمی نیٹ ورک کا حصہ ہونے کے الزامات کا سامنا ہے۔
پراسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ 29 سالہ بھارتی شہری ہرش کمار رامن لال پٹیل انسانی اسمگلنگ کے ایک منصوبے کا حصہ تھا اور اس نے تارکین وطن کو سرحد عبور کرانے کے لیے فلوریڈا کے ایک 50 سالہ شخص اسٹیو شینڈ کو بھرتی کیا تھا۔
ان دونوں افراد نے منی سوٹا کی ایک وفاقی عدالت میں اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ بے قصور ہیں۔ اب ان کا مقدمہ ڈسٹرک جج جان ٹن ہیم سنیں گے جس کی کارروائی تقریباً پانچ روز تک جاری رہنے کا امکان ہے۔
یہ واقعہ 19 جنوری 2022 کا ہے۔ اس روز اسٹیو شینڈ اپنے ٹرک میں 11 تارکین وطن کا انتظار کر رہا تھا۔ ان گیارہ افراد میں بھارتی ریاست گجرات کے ایک گاؤں ڈنگوچہ کا چار افراد پر مشتمل ایک خاندان بھی شامل تھا۔
پراسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ اس خاندان میں 39 سالہ جگدیش پٹیل، اس کی بیوی ویشالی بین، جس کی عمر 35 سال کے لگ بھگ تھی، گیارہ سالہ بیٹی وینگی اور تین سالہ بیٹا دھرمک شامل تھے۔
اس روز شدید سردی تھی اور تیز ہوا چل رہی تھی جس سے درجہ حرارت صفر سے 36 ڈگری سینٹی گریڈ نیچے تک گر گیا تھا۔ تیز اور یخ ہواؤں میں اس خاندان کو کئی گھنٹوں تک چھپتے چھپاتے کھیتوں میں سے گزرنا پڑا، جس کی وجہ سے وہ چاروں ٹھٹھر کر ہلاک ہو گئے۔
استغاثہ کے مطابق جب جگدیش کی لاش ملی تو اس کے ہاتھوں میں دھرمک تھا، جو کمبل میں لپٹا ہوا تھا۔
وفاقی پراسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ ہرش کمار پٹیل کا ٹھٹھر کر مرنے والے جگدیش پٹیل کے خاندان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ہرش کمار پٹیل اور شینڈ انسانی اسمگلنگ کے اس منصوبے کا حصہ تھے ۔ انہوں نے بھارت سے اپنے یہ گاہک تلاش کیے، ان کے لیے کینیڈا کے اسٹوڈنٹ ویزے کا بندوبست کیا اور انہیں سرحد پار کروانے کے لیے ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا۔ وہ زیادہ تر لوگوں کو امریکی ریاست واشنگٹن یا منی سوٹا پہنچاتے تھے۔
امریکہ کے سرحدی محافظوں نے اس سال 30 ستمبر تک 14000 سے زیادہ بھارتیوں کو کینیڈا کی سرحد عبور کر کے غیر قانونی طور پر امریکہ داخل ہونے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔
ایک امریکی تھنک ٹینک پیو ریسرچ سینٹر کے اندازوں کے مطابق سن 2022 تک 725000 سے زیادہ بھارتی باشندے غیر قانونی طور پر امریکہ میں رہ رہے تھے۔ میکسکو اور ایل سلواڈور کے باشندوں کے بعد یہ غیر قانونی طور پر امریکہ میں رہنے والوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
ہرش کمار پٹیل کے اٹارنی تھامس لینن ویبر نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ان کا مؤکل غربت سے بچنے اور اپنے لیے بہتر زندگی کی تلاش میں امریکہ آیا تھا اور اس پر اس خوفناک جرم میں حصہ لینے کا لگایا جانے والا الزام بلا جواز ہے۔ ہرش کمار کو اس ملک کے نظام انصاف پر، جسے اس نے اپنے رہنے کے لیے چنا ہے، پورا یقین ہے۔ اور اسے یقین ہے کہ اس مقدمے میں سچ سامنے آئے گا۔
پراسیکیوٹرز نے عدالت میں جو دستاویزات پیش کیں ہیں، ان کے مطابق پانچ بار امریکی ویزے کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد وہ غیر قانونی طور پر اس ملک میں رہ رہا ہے اور یہ کہ اس نے فلوریڈا کے ایک قصبے ڈیلٹونا، جہاں وہ رہتا ہے، کے قریب واقع ایک کسینو سے شینڈ کو بھرتی کیا تھا۔ یہ قصبہ آرلینڈو کے شمال میں واقع ہے۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق، ہرش کمار پٹیل اور شینڈ، پانچ ہفتوں کے عرصے میں، جس دوران انہوں نے بھارتیوں کے پانچ گروپوں کو سرحد پار کروائی تھی، اکثر شدید سردی کے بارے میں بات کرتے رہے تھے۔
ان دستاویزات کے مطابق دسمبر 2021 کی ایک رات، جب شینڈ ایک گروپ کو لے جانے کا انتظار کر رہا تھا، ہرش کمار پٹیل کو یہ پیغام لکھا کہ کڑاکے کی سردی پڑ رہی ہے۔
پیٹل نے اپنے جوابی پیغام میں کہا، ’جب یہ لوگ یہاں پہنچیں گے تو وہ زندہ ہوں گے‘۔
استغاثہ کے مطابق جنوری کے آخر میں تارکین وطن کے آخری گروپ کو ٹرانسپورٹ کرنے کے موقع پر شینڈ نے پٹیل کو اپنے پیغام میں کہا تھا کہ اس چیز کو یقینی بنایا جائے کہ ہر شخص نے برفانی طوفان کی صورت حال کا سامنا کرنے کے لیے مناسب کپڑے پہن رکھے ہوں۔
استغاثہ کا کہنا ہے کہ شینڈ نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ پٹیل نے انہیں پانچ ٹرپس کے لیے تقریباً 25000 ڈالر ادا کیے تھے۔
جگدیش پٹیل بھارتی گاؤں ڈنگوچہ میں پلے بڑھے۔ وہ اور ان کی فیملی اپنے والدین کے ساتھ رہتی تھی۔ مقامی خبروں کے مطابق دونوں میاں بیوی اسکول میں پڑھاتے تھے۔
مناپلس میں مقیم ست ویر چوہدری امیگریشن وکیل ہیں۔ وہ موٹل مالکان کے ہاتھوں استیصال کا شکار ہونے والے بہت سے تارکین وطن کی مدد کر چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق بھارتی ریاست گجرات سے تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ انسانی اسمگلروں اور مشکوک کاروباری مفادات نے بہت سے تارکین وطن کو امریکہ کا خواب دکھایا، اور جب وہ یہاں پہنچے تو حقیقت کھلی۔
چوہدری کا کہنا تھا کہ ڈالر کی کشش بہت سے لوگوں کو اپنے وقار کو داؤ پر لگا کر بہت سے خطرات مول لینے پر مجبور کرتی ہے، حتیٰ کہ اپنی جانوں کا خطرہ بھی، جیسا کہ اس معاملے میں ہم دیکھ رہے ہیں۔
(اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)