پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے تقریباً پونے دو سو کلومیٹر کے فاصلے پر کوہستان واقع ہے ۔ یہ پہاڑی علاقہ ہے اور یہاں قبائلی افراد کی اکثریت آباد ہے۔ ان لوگوں کی اپنی روایات اور زندگی گزارنے کے اپنے طور طریقے ہیں تاہم ان روایات میں بعض روایات اس حدتک سخت ہیں کہ ان کے آگے انسانی زندگیوں کی بھی کوئی قدر و قیمت نہیں۔
انہی روایات میں سے ایک روایت ہے ”مردوں اور عورتوں کے درمیان فاصلہ قائم رکھنا“۔ یہاں ہر عورت کے لئے ہر غیر مرد” نامحرم“ ہے یعنی وہ عورت نہ تو کسی مرد سے کوئی میل ملاپ رکھ سکتی ہے اور نہ ہی اس سے بات چیت ہی کرسکتی ہے۔ حتیٰ کے چند انتہائی قریبی اور خون کے رشتوں کے علاوہ عورت کسی سے نہیں مل سکتی۔
یہاں شادی بیاہ کی تقریبات میں شرکت کے لئے بھی مردوں اور عورتوں کے لئے الگ الگ انتظامات کرنا پڑتے ہیں ۔ خلاف ورزی کی صورت میں سخت قبائلی قوانین ہیں جن کے تحت نامحرم مرد اور عورتیں اگر ایک ساتھ اٹھتی بیٹھتی نظر آجائیں تو انہیں جان سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے یہاں ایسا ہی ایک خوفناک واقعہ پیش آیا۔کوہستان کی یونین کونسل پیچ بیلا کے گاوٴں بندو بیدار میں شادی کی ایک تقریب ہوئی ۔ خوشی کی اس تقریب میں چار شادی شدہ خواتین نے روایتی انداز میں تالیاں بجاتے ہوئے لوک گیت گانا شروع کردیئے جنہیں سن کر دو کم عمر لڑکوں نے کھڑے ہوکر علاقائی اور روایتی لوک رقص کرنا شروع کردیا۔
غور طلب بات یہ ہے کہ خواتین ان لڑکوں کے مقابلے میں عمرمیں خاصی بڑی تھیں جبکہ ان لڑکوں کی عمریں ان خواتین کے بیٹوں جتنی ہی ہوں گی۔ محفل میں موجود کسی شخص نے اسے موبائل فون ویڈیو کی شکل میں ریکارڈ کرلیا۔
لیکن شادی کے بعد جب یہ ویڈیو کسی طرح ایک مقامی عالم/مولوی تک پہنچی تو اس نے کہرام مچادیا۔اس کا کہنا تھا کہ یہ بہت برا کام ہوا ہے ۔ غیر محرم مردوں اور عورتوں نے اکھٹا رقص اور گانا بجانا کیا۔
یہ بات پھیلتے پھیلتے اتنی عام ہوئی کہ قبائلی روایات کے مطابق مقامی علما نے فتویٰ جاری کیا کہ رقص کرنے اور گانا گانے والے 2غیر محرم مرد اور4 عورتوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا جائے ۔
ان چھ افراد پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے قبائلی روایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک ساتھ محفل سجائی لہذا انہیں ایک ساتھ ہی قتل کردیا جائے۔
یہ سنتے ہی دونوں نوجوان کسی طرح موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تاہم خواتین کو حراست میں لیکر ایک گھر میں بندکردیا گیا۔ فیصلہ کیا گیا کہ پہلے مفرور مردوں کو حراست میں لے کر قتل کیا جائے اس کے بعد ان چاروں خواتین کو موت کے حوالے کیا جائے۔
تاہم ان خواتین کی قسمت اچھی تھی کہ اس دوران کسی طرح اس واقعہ کی خبر پولیس کوہو گئی جس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے خواتین کو بازیاب کرالیا تاہم علماکے فتوے پر عمل درآمد کے لئے قبائلیوں کا دباوٴ مسلسل بڑھ رہا ہے۔
پولیس کے ذریعے ہی یہ واقعہ پہلی مرتبہ گزشتہ روز مقامی میڈیا میں آیا اور اب پاکستان کے کئی نجی چینلز اور اخبارات میں اس واقعے کی گونج سنائی دے رہی ہے۔
نجی چینلز نے وہ ویڈیو بھی حاصل کرلی ہے جو بظاہر اس تمام فساد کی جڑ بنی۔ نجی چینلز پر پیر اور منگل کے دن بار بار یہ ویڈیو دکھائی جاتی رہی۔
ضلعی پولیس افسرر عبدالمجید آفریدی نے میڈیا کو دیئے گئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ معاملہ قبائلی جھگڑے کی وجہ سے سامنے آیا ہے ورنہ موبائل فون پر بنائی جانے والی ویڈیوانہوں نے خود دیکھی ہے جس میں خواتین اور مرد اکھٹے رقص نہیں کررہے بلکہ چار خواتین علیحدہ گانا گارہی ہیں اور ایک مرد علیحدہ رقص کررہا ہے جبکہ ایک اورشخص کسی اور جگہ بیٹھا ہوا گانا گارہا ہے۔ علما کو دکھائی جانے والی ویڈیو خود ساختہ ہے اور اس کی وجہ قبائلی دشمنی کے علاوہ کچھ نہیں۔
مقامی میڈیا نے بعض ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ چار خواتین اور دو مردوں کے قتل کا حکم ایک جرگے میں کیا گیا تھا تاہم ڈی پی اوعبدالمجید آفریدی کا کہنا ہے کہ ایک مولوی نے ویڈیو دیکھ کرکہا تھا کہ یہ بہت برا کام ہے جس پر قبائلی مشتعل ہوگئے ۔ اس پر علما کا اجلاس بلایا گیا ہے جو ایک دو روز میں معاملے کا جائزہ لے گا۔
ادھر انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی چھ غیر سرکاری تنظیموں نے اس واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مورد الزام ٹھہرائے جانے والے چھ افراد کی زندگیوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
ان تنظیموں نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ بازیاب ہونے والی خواتین کو دارالامان منتقل کیا جائے اور جرگہ سسٹم پر ہمیشہ کے لئے پابندی عائد کی جائے۔ تنظیموں کا ماننا ہے کہ جرگہ سسٹم خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے کی اصل وجہ ہے جسے جتنا جلد ممکن ہوسکے جڑسے اکھاڑدیا جائے۔