طلاق ثلاثہ قانون بھارت کی اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج

Indian Supreme Court Building

بھارت کی پارلیمنٹ سے حال ہی میں منظور ہونے والے متنازع طلاق ثلاثہ کے قانون کو سپریم کورٹ اور دہلی ہائی کورٹ میں الگ الگ چیلنج کر دیا گیا ہے۔

تیس جولائی 2019 کو پارلیمنٹ سے منظور کیے جانے والے طلاق ثلاثہ بل کو، جو کہ اب قانون بن چکا ہے، کے خلاف دونوں عذر داریوں میں اس قانون کو آئین اور شریعت کے منافی بتایا گیا ہے۔

کیرالہ کی ایک مذہبی تنظیم سمست جمعیة علما نے اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ پارلیمنٹ نے یہ قانون مذہبی شناخت کی بنیاد پر عوام کے ایک طبقے کے خلاف وضع کیا ہے۔

اس تنظیم کے بقول طلاق ثلاثہ قانون سے عوامی سطح پر شدید بدگمانی پیدا ہوگی اور اگر اس بدگمانی کو دور کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو لوگ مذہبی بنیاد پر بٹ جائیں گے اور معاشرے میں عدم استحکام پیدا ہوگا۔

طلاق ثلاثہ قانون کی دفعہ چار کے مطابق بیک وقت تین طلاقیں دینے والے کو تین سال قید کی سزا ہوگی۔ (فائل فوٹو)

عدالت میں دائر درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ اس قانون کا مقصد بیک وقت دی جانے والی تین طلاقوں کو ختم کرنا نہیں بلکہ مسلم مردوں کو سزا دینا ہے۔

اس قانون کی دفعہ چار کے مطابق بیک وقت تین طلاقیں دینے والے کو تین سال قید کی سزا ہوگی جب کہ دفعہ سات کے مطابق اسے قابل مواخذہ جرم قرار دیا گیا اور ناقابل ضمانت بنایا گیا ہے۔

طلاق ثلاثہ قانون کو دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے والے ایک سینئر وکیل شاہد علی خان کا دعویٰ ہے کہ یہ قانون مسلم مردوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون دستور کی دفعہ 14، 15، 21 اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔

وکیل شاہد علی خان نے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کریم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ طلاق ثلاثہ کا قانون سورة البقرہ کی آیات 228/ 229 اور 230، سورة نساء کی آیت نمبر 35 اور سورة طلاق کی آیت نمبر 127 کی خلاف ورزی ہے۔

مسلم کمیونٹی طلاق ثلاثہ کے قانون کو متنازع قرار دے رہی ہے۔ (فائل فوٹو)

انہوں نے مزید کہا کہ دفعہ 25 کے تحت دستور ہر شخص کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت دیتا ہے اور یہ قانون اس کی بھی خلاف ورزی ہے۔ لہٰذا اسے ختم کیا جانا چاہیے۔

شاہد علی خان ایڈووکیٹ نے یہ بھی کہا کہ یہ قانون شوہر اور بیوی کے درمیان مصالحت کے تمام دروازے بند کر دیتا ہے۔

انہوں نے شوہر کو جیل ہو جانے کی صورت میں حکومت کی جانب سے بیوی کے نان نفقے کا انتظام نہ کیے جانے پر بھی اعتراض اٹھایا۔

دوسری جانب حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ قانون مسلم خواتین کے ساتھ انصاف کو یقینی بنانے کے لیے ہے اور اس سے صنفی امتیاز ختم ہوگا۔

وزیر قانون روی شنکر پرساد کے مطابق طلاق ثلاثہ کے قانون کو سیاست کے چشمے سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ اس قانون کے ذریعے مسلم خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو دور کیا ہے۔

روی شنکر نے متعدد مسلم ملکوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ شریعت کے مطابق چلتے ہیں اس کے باوجود انہوں نے اس قانون میں تبدیلی کی ہے۔

لیکن روی شنکر پرساد نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا کہ جب شوہر جیل چلا جائے گا تو اُس کے بیوی بچوں کے اخراجات کون برداشت کرے گا۔