مسلم خواتین کی شادی کے تحفظ سے متعلق متنازع بل جسے عرف عام میں طلاق ثلاثہ مخالف بل کہا جا رہا ہے، منگل کو بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا راجیہ سبھا نے بھی منظور کر لیا ہے۔
لوک سبھا نے اس کی پہلے ہی منظوری دے دی تھی۔ بل کے حق میں 99 اور مخالفت میں 84 ووٹ پڑے۔ اسے مودی حکومت کی بہت بڑی کامیابی تصور کیا جا رہا ہے۔
بل پیش کرتے ہوئے وزیر قانون روی شنکر پرشاد نے کہا کہ اسے سیاسی چشمے سے نہ دیکھا جائے بلکہ اسے مسلم خواتین کے حقوق اور ان کے وقار کے معاملے کے طور پر دیکھا جائے۔
ساڑھے چار گھنٹے سے زیادہ بحث چلی اور پھر ووٹنگ ہوئی۔
راجیہ سبھا میں حکومت اقلیت میں ہے۔ اس کے باوجود اسے منظور کر لیا گیا۔
دراصل ووٹنگ کے دوران حکومت کی ایک حلیف جماعت جنتا دل یونائٹڈ، اے آئی اے ڈی ایم کے اور ایک اپوزیشن جماعت ٹی آر ایس کے ارکان ایوان سے غیر حاضر رہے جس کی وجہ سے ایوان میں ارکان کی تعداد کم ہو گئی۔
ایک اپوزیشن جماعت بیجو جنتا دل نے بل کے حق میں ووٹ دیا۔
اس سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے نتیش کمار سمیت کئی لیڈروں سے بات کی۔ اپوزیشن کے کئی ارکان بھی غیر حاضر رہے۔ لہٰذا، حکومت کو اسے منظور کرا لینے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔
اس بل میں تین طلاقیں دینے والے شوہر کو تین سال جیل کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
اس سے قبل سپریم کورٹ نے تین طلاقوں کو غیر آئینی و غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔ یعنی فیصلے کے مطابق، بیک وقت دی جانے والی تین طلاقیں مؤثر ہی نہیں ہوں گی۔
اپوزیشن نے بل کی شدید مخالفت کی۔ اس کا کہنا ہے کہ جب شوہر جیل چلا جائے گا تو اس کے بیوی بچوں کی کفالت کون کرے گا۔ حکومت نے مطلقہ اور اس کے بچوں کے نان نفقے کا کوئی انتظام نہیں کیا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی تین طلاقیں دی جا رہی ہیں۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ایک رکن ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بل میں بہت تضاد ہے اور بہت خامیاں ہیں۔
ان کے مطابق، بورڈ اس معاملے پر غور کر رہا ہے اور توقع ہے کہ جلد ہی اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔
اب اس بل کو صدر کے پاس بھیجا جائے گا۔ ان کے دستخط کے بعد اسے قانون کا درجہ مل جائے گا۔