امریکی کانگریس کی عمارت پر بدھ کو مظاہرین کے حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال اور کئی حلقوں کی جانب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے یا انہیں عہدے سے ہٹانے کے بڑھتے ہوئے مطالبات کے بعد صدر نے بالآخر انتقالِ اقتدار پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔
صدر ٹرمپ نے جمعرات کو ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں انہوں نے پہلی مرتبہ اعلان کیا کہ "نئی انتظامیہ 20 جنوری کو حلف اٹھائے گی اور اب اُن کی تمام تر توجہ منظم اور کسی بھی رکاوٹ کے بغیر اقتدار کی منتقلی پر مرکوز ہو گی۔"
اُن کے بقول موجودہ حالات میں قومی مفاہمت کی ضرورت ہے۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ "وہ جانتے ہیں کہ ان کے حامیوں کو مایوسی ہوئی ہے لیکن حامی جان لیں کہ ہمارے ناقابلِ یقین سفر کا ابھی صرف آغاز ہوا ہے۔"
صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ کیپٹل ہل پر حملے کے بعد انہوں نے فوری طور پر نیشنل گارڈز اور وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو عمارت کے تحفظ اور مظاہرین کو وہاں سے نکالنے کے لیے روانہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ کانگریس کی عمارت میں تشدد اور ہنگامہ آرائی کرنے والے امریکہ کی نمائندگی نہیں کرتے اور جنہوں نے قانون توڑا وہ اس کی قیمت چکائیں گے۔
کیپٹل ہل پر حملے کے بعد بڑے پیمانے پر ہونے والی تنقید کے باوجود صدر ٹرمپ کے بیشتر حامی اب بھی اُن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ تاہم صدر پر مستعفی ہونے یا ان کے مواخذے کے مطالبات بھی شدت اختیار کر گئے ہیں۔
ڈیموکریٹ پارٹی کے دو سینئر رہنماؤں نے جمعرات کو مطالبہ کیا ہے کہ صدر ٹرمپ کو عہدے سے ہٹایا جائے۔
امریکہ میں صدر کو عہدے سے ہٹانے کی صرف دو صورتیں ہیں۔ ایک صورت کانگریس میں صدر کا مواخذہ ہے جب کہ دوسری صورت میں امریکی آئین کی 25 ویں ترمیم یہ اجازت دیتی ہے کہ ذہنی صحت خراب ہونے پر نائب صدر اور کابینہ کی اکثریت صدر کو عہدے سے ہٹا سکتی ہے۔
SEE ALSO: کیپٹل ہل پر ہنگامہ آرائی: وزیرِ تعلیم، وزیرِ ٹرانسپورٹ سمیت متعدد حکام مستعفیاب تک سامنے آنے والے اطلاعات کے مطابق نائب صدر مائیک پینس 25 ویں ترمیم پر عمل درآمد کے حق میں نہیں ہیں۔ مائیک پینس نے بدھ کو کانگریس میں صدارتی انتخاب کی توثیق کے عمل کے دوران صدر ٹرمپ کے اس مطالبے کو یکسر نظر انداز کر دیا تھا کہ نائب صدر انتخاب کی توثیق نہ کریں یا نتائج کو ان کے حق میں کر دیں۔
نائب صدر کی جانب سے صدر ٹرمپ کے اس مطالبے کو نظر انداز کرنے کے بعد کئی حلقے ان سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ صدر کو عہدے سے ہٹانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
صدر کو عہدے سے ہٹانے کے یہ مطالبات ایسے وقت کیے جا رہے ہیں جب ان کے عہدے کی آئینی مدت ختم ہونے میں دو ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔
سینیٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے قائد چک شومر نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس سے بے دخل کرنے کے لیے 25 ویں ترمیم کا استعمال تیز ترین اور مؤثر طریقہ ہے۔
اُن کے بقول موجودہ صدر کو مزید ایک دن بھی وائٹ ہاؤس میں نہیں رہنا چاہیے۔
SEE ALSO: امریکہ: کانگریس کی عمارت پر حملے کی فوجداری تحقیقات کا آغازانہوں نے کہا کہ اگر نائب صدر اور کابینہ ارکان صدر ٹرمپ کے خلاف کھڑے ہونے سے انکار کر دیتے ہیں تو کانگریس کو صدر کے مواخذے کی کارروائی شروع کر دینی چاہیے۔
ایوانِ نمائندگان کی ڈیموکریٹ اسپیکر نینسی پیلوسی نے بھی جمعرات کو نیوز کانفرنس کے دوران صدر ٹرمپ کو عہدے سے ہٹانے پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ صدر کی مدت مکمل ہونے میں صرف 13 روز باقی رہ گئے ہیں لیکن ہر آنے والا دن امریکہ کے لیے بھیانک ثابت ہو سکتا ہے۔
انہوں نے نائب صدر اور کابینہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "کیا یہ تیار ہیں کہ آئندہ 13 روز یہ خطرناک شخص ملک کی جمہوریت پر حملے کرتا رہے؟"
دوسری جانب صدر ٹرمپ کی کابینہ میں شامل وزرا اور دیگر عہدوں پر تعینات شخصیات کی جانب سے کیپٹل ہل میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے خلاف بطور احتجاج استعفے دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
SEE ALSO: کانگریس سے بائیڈن کی کامیابی کی حتمی توثیق، 20 جنوری کو حلف اٹھائیں گےاب تک وزیرِ تعلیم بیٹسی ڈیووس، وزیرِ ٹرانسپورٹ ایلن چاؤ، محکمۂ خزانہ کے ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری فار انٹیلی جنس اینڈ سیکیورٹی جان کوسٹیلو، چین سے متعلق امور کے نگران صدر ٹرمپ کے مشیر میٹ پوٹنگر، خاتونِ اول میلانیا ٹرمپ کی چیف آف اسٹاف اسٹیفنی گریشم، وائٹ ہاؤس کی ڈپٹی پریس سیکرٹری سارہ میتھیو اور وائٹ ہاؤس کی سوشل سیکرٹری رکی نائسٹا استعفیٰ دے چکے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے اتحادیوں کی تنقید کے بعد ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ چند روز میں مزید استعفے بھی متوقع ہیں۔ تاہم وائٹ ہاؤس نے استعفوں پر فوری طور پر اپنا کوئی ردِ عمل نہیں دیا ہے۔