امریکہ کی کانگریس نے نو منتخب صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کاملا ہیرس کی تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں کامیابی کی توثیق کر دی ہے جس کے بعد بائیڈن 20 جنوری کو ملک کے 46ویں صدر کی حیثیت سے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔
امریکی ایوانِ بالا (سینیٹ) اور ایوانِ زیریں (ایوانِ نمائندگان) کے جعمرات کی علی الصبح تک جاری رہنے والے مشترکہ اجلاس کے دوران بائیڈن کی جیت کی توثیق کی گئی۔
اجلاس کے دوران امریکہ کی تمام 50 ریاستوں کے الیکٹورل ووٹس کی تفصیل باری باری پیش کی گئی جس کی اراکین کانگریس نے توثیق کی۔
اجلاس کے دوران ری پبلکن ارکان نے بعض ریاستوں میں جو بائیڈن کی فتح اور انہیں حاصل ہونے والے الیکٹورل ووٹ پر اعتراض بھی اٹھائے۔ لیکن یہ تمام اعتراضات ایوان نے کثرتِ رائے سے مسترد کر دیے۔
تین نومبر کے صدارتی انتخاب میں بائیڈن نے 306 اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 232 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے تھے۔ امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے لیے کم سے کم 270 الیکٹورل ووٹ لینا لازمی ہے۔
جو بائیڈن نے صدارتی انتخابات میں مطلوبہ تعداد سے زیادہ الیکٹورل ووٹ حاصل کیے تھے اور اب ان الیکٹورل ووٹوں کی کانگریس سے تصدیق کے بعد صدارتی انتخاب کا عمل باضابطہ طور پر مکمل ہو گیا ہے۔
صدر ٹرمپ بائیڈن کی کامیابی تسلیم کرنے سے مسلسل انکار کرتے رہے ہیں اور انہوں نے بدھ کو بھی اپنے حامیوں سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ صدارتی انتخاب چوری کیا گیا ہے اور وہ شکست تسلیم نہیں کریں گے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو کانگریس کی عمارت کی جانب مارچ کرنے کی حوصلہ افزائی بھی کی تھی جس کے بعد مظاہرین نے کیپٹل ہل کی عمارت پر دھاوا بول کر وہاں توڑ پھوڑ بھی کی۔
مظاہرین کے کانگریس کی عمارت میں داخل ہونے کے بعد صدارتی انتخاب کے نتائج کی توثیق کے لیے جاری اجلاس معطل کرنا پڑا تھا اور مظاہرین سے بچنے کے لیے ارکان نے عمارت کے مختلف کمروں میں پناہ لی تھی۔
مظاہرین کئی گھنٹوں تک کانگریس کی عمارت میں موجود رہے تھے اور بعدازاں پولیس اور فوج کے اضافی دستوں کی آمد کے بعد عمارت کو کلیئر کرایا گیا تھا جس کے بعد اجلاس دوبارہ شروع ہوا تھا۔
کیپٹل ہل میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے دوران ایک خاتون کی ہلاکت بھی ہوئی ہے۔
امریکہ میں جمہوریت کی علامت سمجھی جانے والی کیپٹل ہل کی عمارت میں ہنگامہ آرائی کی امریکہ کے سابق صدور جارج ڈبلیو بش اور براک اوباما سمیت کئی مقامی اور عالمی رہنماؤں نے مذمت کی ہے۔