امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹیکس گوشوارے جمع کرانے سے متعلق ماتحت عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔
نیویارک کی سیکنڈ کورٹ سرکٹ عدالت کے تین رکنی بینچ نے چار نومبر کو متفقہ فیصلے میں صدر کی اکاؤنٹنگ فرم 'مزارز ایل ایل پی' کو حکم دیا تھا کہ وہ صدر ٹرمپ کے آٹھ برس کے ٹیکس گوشوارے درخواست گزار کو فراہم کرے۔
خبر رساں ادارے، رائٹرز کے مطابق صدر ٹرمپ کے وکیل جے سیکلو کا کہنا ہے کہ ماتحت عدلیہ کی جانب سے امریکہ کے صدر کو ٹیکس گوشوارے داخل کرانے پر مجبور کرنا غیر آئینی ہے۔
ان کے بقول، صدر ٹرمپ کو امید ہے کہ اعلیٰ عدالت ماتحت عدلیہ کے اس نقصان دہ فیصلے کو کالعدم قرار دے گی۔
قانونی ماہرین کے مطابق، اس معاملے میں یہ نکتہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا یہ فیصلہ آئین میں صدر کو دیے گئے اختیارات کی نفی ہے یا نہیں۔
صدر ٹرمپ کے ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی درخواست مین ہیٹن ڈسٹرکٹ اٹارنی سائرس وینس کے دفتر کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔
ڈیموکریٹ سائرس وینس نے صدر ٹرمپ اور ان کے خاندان کے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں مبینہ گھپلوں کی تحقیقات کے حوالے سے ٹیکس گوشوارے ظاہر کرنے کے لیے عدالت کو درخواست کی تھی۔
البتہ، نیو یارک کی عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ واضح نہیں کیا تھا آیا صدر ٹرمپ کو ایسی تحقیقات کے ضمن میں استثنٰی حاصل ہے یا نہیں۔
صدر ٹرمپ کے وکلا کا مؤقف ہے کہ جب تک ڈونلڈ ٹرمپ صدارت کے منصب پر فائز ہیں۔ ان کے خلاف کسی بھی طرح کی کریمنل تحقیقات شروع نہیں کی جا سکتیں۔
ٹرمپ کے وکلا کے مطابق، درخواست گزار نے یہ بھی واضح نہیں کیا کہ انہیں صدر ٹرمپ کے ٹیکس گوشوارے کس مقصد کے لیے درکار ہیں۔
SEE ALSO: امریکہ کے صدر کی تنخواہ کتنی ہے؟لیکن، سائرس وینس کہتے ہیں کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 2016 کے صدارتی انتخابات سے قبل دو خواتین کو دی گئی رقوم سے متعلق تحقیقات چاہتے ہیں۔
خیال رہے کہ صدر ٹرمپ پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے اپنے وکیل مائیکل کوہن کے ذریعے فحش فلموں میں کام کرنے والے دو اداکاراوں کو خاموش رہنے کے لیے رقوم دی تھیں۔ صدر ٹرمپ ان الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے صدر کی اپیل نہ سنی تو ماتحت عدلیہ کا فیصلہ برقرار رہے گا اور صدر ٹرمپ کو اپنے ٹیکس گوشوارے ظاہر کرنا ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے صدر ٹرمپ کی اپیل پر فیصلہ رواں مدت کے دوران سنا سکتی ہے جو جون 2020 میں ختم ہو رہی ہے بصورت دیگر سپریم کورٹ کی جانب سے یہ فیصلہ 2020 میں صدارتی الیکشن کے بعد بھی سنایا جا سکتا ہے۔
صدر ٹرمپ کے خلاف ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی درخواست رواں سال اگست میں دائر کی گئی تھی۔
درخواست گزار نے صدر ٹرمپ سے 2011 سے 2018 تک ٹیکس گوشوارے اور دیگر دستاویزات طلب کی تھیں۔
صدر ٹرمپ نے بھی ردعمل کے طور پر درخواست گزار پر استثنٰی کے باوجود صدر کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کرنے پر دعویٰ دائر کیا تھا جسے عدالت نے مسترد کر دیا تھا۔
خیال رہے کہ امریکی ایوانِ نمائندگان میں صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی بھی جاری ہے۔
صدر ٹرمپ پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے سابق نائب صدر جو بائیڈن اور ان کے بیٹے کے خلاف تحقیقات کے لیے یوکرین کے صدر پر دباؤ ڈالا تھا۔ جو بائیڈن آئندہ سال صدارتی انتخابات میں صدر ٹرمپ کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈیموکریٹ پارٹی کے مضبوط امیدوار ہو سکتے ہیں۔