ری پبلیکن پارٹی کےڈونالڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک پارٹی کی ہیلری کلنٹن ایک دوسرے پر امریکی صدارت کے لیے غیر موزوں ہونے کا الزام لگایا ہے، ایسے میں جب اگلے منگل کو ہونے والےقومی انتخابات سے قبل یہ صدارتی مہم کے آخری دِن ہیں۔
ٹرمپ نے بدھ کے روز دعویٰ کیا کہ کلنٹن کو منتخب کرنے سے ملک میں ’’غیرمعمولی اور طویل مدتی آئینی بحران‘‘ پیدا ہوگا۔ اُنھوں نے یہ بات انتخابی مہم کے دوران فلوریڈا میں قیام کے دوران کی۔ اُنھوں نے تسلیم کیا کہ وائٹ ہاؤس تک پہنچنے کے لیے ملک کے جنوب مشرقی حصے میں واقع اِس ریاست میں اُن کی جیت ضروری ہے۔
کھرے اور منہ پھٹ، جائیداد کے نامور کاروباری شخص نے کہا ہےکہ ’’منتخب ہونے کی صورت میں کلنٹن کو قومی سلامتی کے مواد کے معاملے پر چھان بین کا سامنا درپیش رہے گا‘‘، جن پر الزام ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کے طور پر چار برس کے دور میں اُنھوں نے اپنی اِی میلوں کے معاملے پر احتیاط نہیں برتی۔
میامی میں تالیاں بجاتے ہوئے ایک اجتماع سےخطاب میں ٹرمپ نے کہا کہ ’’اس کی وہ خود ذمہ دار ہیں، وہ کسی اور پر الزام نہیں لگا سکتیں۔ اُنھوں نے ہی اپنا اِی میل سرور نصب کیا تھا‘‘۔
ہیلری کلنٹن نے منگل کے روز ہمدردیاں تبدیل کرنےکے قابل فلوریڈا کی ریاست کا دورہ کیا، جب اُنھوں نے خواتین سے روا رکھے گئے رویے پر ٹرمپ پر نکتہ چینی کی۔ اُنھوں نے ایک نیا اشتہار جاری کیا جس میں سنہ 2005میں خواتین سے لغو گفتگو کا الزام لگایا، جس میں وہ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ اگر آپ مشہور شخصیت ہو تو آپ کو ہر چیز معاف ہے۔
کلنٹن کے بقول، ’’جن میں سوچتی ہوں کہ اب ہم ڈونالڈ ٹرمپ کے بارے میں کیا کچھ جانتے ہیں اور ہم 30 برس سے کچھ نہیں کرتے رہے ہیں، کوئی شک نہیں، اُنھوں نے خواتین کے خلاف نازیبا، گھنٹیا، بے حرمتی پر مبنی کے کلمات کہے، اور اُنھیں زد و کوب کیا‘‘۔
بدھ کے روز وہ ملک کی مغربی ریاست، ایریزونا گئیں، جہاں کثیر ہسپانوی آبادی مقیم ہے، جو ٹرمپ کی امی گریشن مخالف پالیسیوں سے نالاں ہیں۔ کلنٹن کی یہ کوشش ہے کہ وہ اس ریاست میں کامیابی حاصل کریں جہاں گذشتہ 16 انتخابات کے دوران ری پبلیکن پارٹی کے 15 صدارتی امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔
وہ قریبی ریاست، نیواڈا میں بھی انتخابی مہم چلاتی رہی ہیں، جہاں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔
رائے عامہ کے قومی سیاسی جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ ٹرمپ اُس سبقت کو کم کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں، جو گذشتہ چند ہفتوں کے دوران کلنٹن کو حاصل تھی۔ ’واشنگٹن پوسٹ‘ اور ’اے بی سی نیوز‘ کی جانب سے کرائے گئے تازہ ترین سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ چند روز سے دونوں کو 46 فی صد ووٹروں کی حمایت حاصل ہے۔
دیگر جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ کانٹے کے مقابلے والی دوسری ریاستوں کے نتائج زیادہ مختلف نہیں، جن کے نتائج مستقبل پر اثرانداز ہوں گے۔
تاہم، پولنگ کے تجزیہ کار اب بھی الیکٹورل کالج کے حوالے سے پیش گوئی میں کلنٹن کے لیے برتری کا دعویٰ کرتے ہیں، جنھیں وہ ملک کی پہلی خاتون صدر کے طور پر کامیاب ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات مقبول قومی ووٹ پر نہیں جیتے جاتے، لیکن یہ کامیابی ملک کی 50 ریاستوں اور واشنگٹن ڈی سی میں سے ہر ایک میں نتائج کی بنیاد پر مرتب ہوتی ہے۔
ملک کی کثیر آبادی والی ریاستوں کے پاس سب سے زیادہ الیکٹورل کالج ووٹ ہوتے ہیں، جب کہ 538 الیکٹورل ووٹوں میں سے جیتنے والے کو 270 ووٹ درکار ہوتے ہیں، جن کا انحصار ہر ریاست کے ووٹنگ کے نتائج پر ہوتا ہے۔
دونوں امیدواروں کے لیے فلوریڈا کی ریاست اہم ہے۔ اس توقع کے ساتھ کہ وہ اس کے 29 الیکٹورل ووٹ حاصل کر سکیں گے، جو باقی ریاستوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہیں، جن کانٹے کے مقابلے والی ریاستوں میں حالیہ دِنوں کلنٹن اور ٹرمپ دونوں چکر کاٹتے رہے ہیں۔ تازہ ترین تجزیوں سے پتا چلتا ہے کہ ٹرمپ اور کلنٹن کو ووٹروں کی مساوی تعداد کی حمایت حاصل ہے۔