ایران جوہری سمجھوتہ، ٹرمپ کا فیصلہ کسی بھی وقت متوقع

فائل

برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مئی نے منگل کو ٹرمپ کو ٹیلی فون کیا جس میں اُنھوں نے صدر پر زور دیا کہ ایران جوہری سمجھوتے پر اقدام کے ’’مضمرات پر احتیاط سے غور کیا جائے‘‘۔ اُنھوں نے معاہدے کو ’’علاقائی سلامتی کے لیے کلیدی اہمیت‘‘ کا حامل قرار دیا

متوقع طور پر، صدر ڈونالڈ ٹرمپ اس ہفتے کسی بھی وقت اعلان کرنے والے ہیں جس میں اس بات کی تصدیق نہیں ہوگی کہ ایران 2015ء میں ہونے والے جوہری سمجھوتے پر عمل درآمد کر رہا ہے، جس کے بعد کانگریس کے پاس 60 روز ہوں گے، جس کے اندر اندر وہ ایران پر دوبارہ امریکی تعزیرات عائد کردے گی۔

وائٹ ہاؤس پریس سکریٹری سارا ہکابی سینڈرز نے کہا ہے کہ ’’ایران کے بارے میں صدر مجموعی حکمتِ عملی پر مشتمل اپنا فیصلہ کرچکے ہیں اور وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ اس معاملے سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس وسیع جہتی پالیسی موجود ہو، نہ کہ اس کا محض کوئی ایک حصہ، تاکہ ایران کے تمام مسائل سے نبردآزما ہوا جاسکے، جو غلط انداز اپنائے ہوئے ہے‘‘۔

یہ بات کہ صدر معاہدے کی توثیق کی تجدید نہیں کریں گے، اس معاملے پر داخلی اور بیرونی دونوں سطح پر تشویش پائی جاتی ہے۔

برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مئی نے منگل کو ٹرمپ کو ٹیلی فون کیا جس میں اُنھوں نے صدر پر زور دیا کہ اس کے مضمرات پر احتیاط سے غور کیا جائے۔ اُنھوں نے معاہدے کو ’’علاقائی سلامتی کے لیے کلیدی اہمیت‘‘ کا حامل قرار دیا۔

برطانوی وزیر خارجہ بورس جانسن نے اپنے امریکی ہم منصب ریکس ٹلرسن کو ٹیلی فون کیا، اور اس جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ ’’دنیا کو محفوظ بنایا جائے‘‘۔

بدھ کے روز ایوانِ نمائندگان کی امور خارجہ کمیٹی کے ایک اجلاس کے دوران نیو یارک سے تعلق رکھنے والے رینکنگ ڈیموکریٹ، الیوٹ اینگل نے کہا کہ ابتدا میں اُنھوں نے معاہدے کی مخالفت کی تھی، جسے ’جوائنٹ کمپریھنسو پلان آف ایکشن‘ کا نام دیا گیا، جب اوباما انتظامیہ نے اس پر اتفاق کیا تھا۔ لیکن، اُنھوں نے کہا کہ اب وہ اس کی مخالفت کے حق میں نہیں ہیں۔

اینگل نے کہا کہ ’’ایسے میں جب انتظامیہ سمجھوتے کی جانب پہلا قدم اٹھانے والی ہے، مجھے کہنے دیجئیے کہ ایسا کوئی اقدام سنگین غلطی ہوگی۔ جب تک ہمارے پاس ایران کی دھوکہ دہی کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہ ہو امریکہ کو اپنے عہد کی پاسداری کرنی چاہیئے‘‘۔

بعدازاں،کمیٹی کے ممبر ، اور کیلی فورنیا سے ریپبلیکن پارٹی کے رُکن، دانا روہراباچر کے سوال پر آیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایران سمجھوتے پر عمل درآمد کر رہا ہے، بدھ کے روز سماعت میں شریک چار میں سے دو شاہدین نے نفی میں جواب دیا۔

اپنے ابتدائی بیان میں، کمیٹی کے سربراہ، ایڈ رویس، جن کا تعلق ری پبلیکن پارٹی اور کیلی فورنیا سے ہے، کہا کہ صدر جو بھی فیصلہ کریں گے، ’’امریکہ کو چاہیئے ہوتا کہ وہ سمجھوتے کو بہتر بنانے کے لیے اتحادیوں سے مل کر کام کریں، جس میں اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ بین الاقوامی معائنہ کاروں کو ایران کے ممکنہ جوہری تنصیبات تک بہتر رسائی حاصل ہے۔

بقول اُن کے، ’’میں سمجھتا ہوں کہ صدر أوباما کا نقص والا جوہری سمجھوتا ایک جوا تھا۔ اس جوا کے سودے میں یہ خیال کیا گیا تھا کہ ایران ایک ذمہ دار ملک بن جائے گا، ایسا ملک جو اپنے عوام کی خوش حالی اور اپنی سرحدوں کی سکیورٹی پر دھیان مرکوز رکھے گا’’۔

اُنھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے، اور پیش گوئی کے عین مطابق، ایران کی حکومت ابھی تک اپنے آپ کو ایک تحریک گردانتی ہے، جو نظریے اور تشدد کا سہارا لے کر اپنے ہمسایوں کے عدم استحکام کی باعث بنتی ہے، جن میں خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل شامل ہیں‘‘۔