امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امید ظاہر کی ہے کہ طالبان سے قیدیوں کا تبادلہ افغانستان میں جنگ بندی کا آغاز بن سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کے بقول امریکی یونیورسٹی کے دو مغوی پروفیسروں کی رہائی افغانستان کی طویل جنگ کے خاتمے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
صدر ٹرمپ نے یہ بات بدھ کو اپنے ایک ٹوئٹ میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ ہم کیون کنگ اور ٹموتھی ویکس کی رہائی پر ان کے خاندان کی خوشیوں میں شامل ہیں، جنہیں طالبان کی حراست سے رہا کیا گیا ہے۔
امریکی صدر نے پروفیسروں کی رہائی کے لیے افغان صدر اشرف غنی کی حمایت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ پیش رفت امن کے حصول اور افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمےکے لیے معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ رواں ہفتے طالبان نے دو مغوی پروفیسروں کو حقانی نیٹ ورک کے تین رہنماؤں کے تبادلے میں رہا کیا ہے۔ ان پروفیسرز میں سے ایک امریکی اور ایک آسٹریلوی شہری ہیں۔
یہ پیش رفت ایسے وقت ہوئی ہے جب امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت معطل ہے۔ ایسی صورتِ حال میں تجزیہ کار افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کو اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔
افغان امور کے تجزیہ کار صحافی رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے بعد امریکہ کی یہ کوشش اور خواہش ہے کہ طالبان جنگ بندی پر تیار ہو جائیں۔
SEE ALSO: دنیا کے خطرناک دہشت گرد گروہوں کی درجہ بندی، طالبان سرِ فہرسترحیم اللہ یوسف زئی کے بقول اگرچہ طالبان کا کہنا ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کے معاملے پر ان سے کسی اور بات کا وعدہ نہیں کیا گیا ہے لیکن صدر غنی کا کہنا ہے کہ طالبان نے یہ مان لیا ہے کہ وہ کابل حکومت کے ساتھ براہ راست بات چیت کریں گے اور اس کے بعد جنگ بندی ہوگی۔
تجزیہ کار کے مطابق قیدیوں کے تبادلے سے ایک اچھا ماحول پیدا ہوا ہے اور دونوں فریقین کی جانب سے خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے۔
البتہ ساتھ ہی رحیم اللہ کا ماننا ہے کہ حالات ابھی بھی جنگ بندی کے لیے سازگار نہیں ہیں۔ لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ شاید امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت کا عمل دوبارہ بحال ہو جائے۔
SEE ALSO: امریکی یونیورسٹی کے دو پروفیسروں کے بدلے تین طالبان رہنما رہاانہوں نے کہا کہ بین الافغان مذاکرات کا ایک اور دور شروع ہونے کے امکانات بھی موجود ہیں۔
یاد رہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری امن مذاکرات رواں سال ستمبر میں منسوخ کر دیے تھے جس کے بعد سے اب تک امریکہ کی طرف سے مذاکرات دوبارہ بحال کرنے کوئی عندیہ نہیں دیا گیا ہے۔