امریکہ سے ملحق میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کا حکم جاری کرنے اور ملک میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والوں کی سخت نگرانی کے احکامات جاری کرنے کے بعد صدر ٹرمپ مسلم اکثریتی ملکوں کے لوگوں کا امریکہ میں داخلہ روکنے کا حکم جاری کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
بدھ کے روز اے بی سی نیور کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں مسٹر ٹرمپ نے کہا کہ یہ وہ ملک ہیں جہاں بڑے پیمانے پر دہشت گردی موجود ہے اور یہ وہ ملک ہیں جہاں سے لوگ یہاں آکر ہمارے لیے بڑے مسائل پیدا کرتے ہیں ۔
حکم نامے کے مسودے کے متعلق کچھ معلومات رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس میں عراق، ایران، لیبیا، شام، صومالیہ، سوڈان اور یمن سے آمد پر کم ازکم 30 دن کی پابندی شامل ہو گی۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران مسٹر ٹرمپ ابتدائی طور پر یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ امریکہ میں تمام مسلمانوں کا داخلہ بند کر دیں گے، تاہم بعد میں انہوں نے اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ان ملکوں کے لوگوں پر پابندی لگائیں گے جو دہشت گردی سے منسلک ہیں۔
انٹرویو کے دوران جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ پابندی کی زد میں آنے والے ملکوں میں افغانستان، پاکستان اور سعودی عرب شامل کیوں نہیں ہے تو ان کا کہنا تھا کہ جو ملک فہرست میں شامل نہیں ہیں وہاں سے آنے والوں کو کڑی چھان بین کے عمل سے گزرنا ہوگا۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ ان ملکوں میں جبر و استبداد کا سامنا کرنے والی اقلیتوں پر ان پابندیوں کا اطلاق نہیں ہوگا۔
حکم نامے میں تمام پناہ گزینوں کی آمد پر چار مہینوں کی پابندی لگانا بھی شامل ہے۔
اپنے انٹرویو میں گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ ایک محفوظ ملک کا صدر بننا چاہتے ہیں۔
انہوں نے اپنی اس تجویز کا ایک بار پھر ذکر کیا کہ وہ شام میں ایک ’محفوظ علاقہ‘ قائم کرنا چاہتے ہیں تاکہ لڑائیوں اور تنازعات سے جان بچا کر بھاگنے والے دوسرے ملکوں میں جانے کی بجائے محفوظ علاقے میں پناہ لیں ۔ انہوں نے کہا کہ محفوظ علاقے میں امریکی فوج تحفظ فراہم کرے گی۔
سابق صدر اوباما نے ایک حکم کے تحت پنے والدین کے ساتھ امریکہ آنے والے بچوں کو دو سال تک رہنے کی اجازت دی تھی۔ ان میں سے بہت سے بچے امریکہ کو اپنا گھر سمجھتے ہیں ۔ وہ یہاں پڑھ رہے ہیں اور ان میں سے کئی ملازمتیں بھی کر رہے ہیں۔
امیگریشن نے کے متعلق سخت موقف رکھنے والے چاہتے ہیں کہ ان بچوں کو بھی اپنے والدین کے ساتھ ملک بدر کر دیا جائے۔
صدر ٹرمپ نے غیر قانونی بچوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ان کا دل بہت بڑا ہے ۔ انہیں پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے بارے میں وہ اگلے چار ہفتوں میں اپنی پالیسی سامنے لائیں گے۔