یورپی حکام کا کہنا ہے کہ اُن کے خیال میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ منگل کے روز امریکہ کو 2015ء کے بین الاقوامی معاہدے سے علیحدہ کرنے کا اعلان کریں گے، جس سمجھوتے کا مقصد ایران کو ایٹمی ہتھیار تشکیل دینے سے روکنا تھا۔ صدر کے فیصلے سے معاہدہ خطرے میں پڑ جائے گا۔
ٹرمپ فیصلے کا اعلان ایسٹرن ٹائم کے مطابق، منگل کی دوپہر دو بجے (پاکستان کے وقت کے مطابق رات 11 بجے) کریں گے، آیا وہ ایران کے خلاف معاشی تعزیرات میں استثنیٰ کی اجازت جاری رکھیں گے۔ 2016ء میں اپنی کامیاب صدارتی انتخابی مہم کے دوران صدر نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ وہ سمجھوتے کو ختم کر دیں گے، حالانکہ حالیہ دِنوں یورپی اتحادیوں نے اُن سے استدعا کی تھی کہ وہ معاہدے سے الگ نہ ہوں۔
تاہم، یورپی سفارت کار جن کی حالیہ دِنوں واشنگٹن میں چوٹی کے امریکی اہل کاروں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں، کہا ہے کہ اُن کے خیال میں اس بات کا بہت ہی کم امکان ہے کہ ٹرمپ سمجھوتے کو جاری رکھیں گے۔
اُن کے اعلان سے کچھ ہی گھنٹے قبل، ٹرمپ نے تواتر کے ساتھ دوسرے روز بھی سابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری پر تنقید کی، جو ایران اور چھ بین القوامی طاقتوں کے درمیان ہونے والے سمجھوتے کے معمار ہیں، جن چھ ملکوں میں چین، روس، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکہ شامل تھے۔ کیری کی ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف سے ملاقات ہوئی ہے، اس کوشش میں کہ جس معاہدے کا سہرا سابق امریکی صدر براک اوباما کے سر ہے اُسے بچایا جاسکے۔
ٹرمپ نے ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ ’’جان کیری اس حقیقت کو چھپا نہیں سکتے کہ اُن کے پاس ایک موقع تھا جسے اُنھوں نے گنوا دیا تھا!۔ جان، مذاکرات سے دور رہیں، آپ اپنے ملک کو نقصان پہنچا رہے ہو!‘‘
اس سے ایک ہی روز قبل ٹرمپ نے کہا تھا ’’امریکہ کو جان کیری کی جانب سے ایران کے ساتھ ایک انتہائی خراب سمجھوتے پر ممکنہ غیرقانونی ’شیڈو ڈپلومیسی‘ کی کوئی ضرورت نہیں۔ اُنھوں نے ہی تو دراصل یہ گند ڈالا تھا!‘‘۔
اگر صدر ٹرمپ فیصلہ کرتے ہیں کہ امریکہ سمجھوتے سے الگ ہو جائے، تو یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ ایران کے ساتھ معاہدے کا کیا بنے گا۔
جوہری توانائی کا بین الاقوامی ادارہ 10 مرتبہ تصدیق کر چکا ہے کہ ایران معاہدے پر عمل درآمد کر رہا ہے۔ یورپی کمیشن نے منگل کے روز کہا ہے کہ سمجھوتا کارگر ہے اور ہماری جانب سے اس پر عمل کا عزم جاری ہے‘‘۔
تاہم، ٹرمپ نے کہا ہے کہ معاہدے میں شدید نقص ہے، چونکہ اس میں ایران کی جانب سے بیلسٹک میزائل کے تجربات یا شام، یمن اور مشرق وسطیٰ کے دیگر مقامات پر ایران کی فوجی مداخلت کے معاملات کو پیشِ نظر نہیں رکھا گیا۔