سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر فردِ جرم عائد ہونے کے بعد اُن کے 2024 کے صدارتی انتخابات کی دوڑ میں شامل رہنے کے امکانات غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہو گئے ہیں۔
ٹرمپ نے 2024 کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ان پر منگل کو نیو یارک میں مین ہیٹن ڈسٹرکٹ اٹارنی نے 34 سنگین الزامات کے تحت فردِ جرم عائد کی تھی۔
ٹرمپ پر الزام ہےکہ انہوں نے 2016 کے صدارتی انتخاب سے قبل متوقع اسکینڈل سے بچنے کے لیے پورن اسٹار اسٹارمی ڈینیئلز کو اس وقت کے اپنے وکیل مائیکل کوہن کے ذریعےایک لاکھ 30ہزار ڈالر رقم خفیہ طور پر فراہم کی تھی۔
پراسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ یہ رقم ایک "غیر قانونی" منصوبے کے تحت فراہم کی گئی تھی جس کا مقصد صدارتی انتخاب سے قبل اپنے خلاف لگنے والے الزامات کو بروقت دبانا اور مخالفین کو خاموش کرانا تھا۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے ایک پول کے مطابق الزامات کے باوجود سابق صدر ٹرمپ آئندہ برس صدارتی اُمیدوار بننے کے لیے ری پبلکنز کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔
اگر ٹرمپ صدارتی نامزدگی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ ممکنہ طور پر آئندہ برس صدر جو بائیڈن کا مقابلہ کریں گے جنہوں نے 2020 کے انتخابات میں اُنہیں شکست دی تھی۔
فردِ جرم عائد ہونے کے بعد ہونے والے پولز میں سے ایک میں بتایا گیا ہے کہ صدارتی نامزدگی کے لیے ٹرمپ فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سینٹیس پر 31 فی صد کے مقابلے میں 57 فی صد کی اب تک کی سب سے بڑی برتری حاصل کیے ہوئے ہیں۔
ری پبلکن پارٹی کے پرائمری انتخابات پر اثر
تازہ پولز میں سابق صدر ٹرمپ ری پبلکن پرائمریز میں اپنے مدِمقابل اُمیدواروں کے مقابلے میں سبقت حاصل کیے ہوئے ہیں۔
رائٹرز کے پول کے مطابق 48 فی صد ری پبلکنز کہتے ہیں کہ وہ ٹرمپ کو صدارتی اُمیدوار دیکھنا چاہتے ہیں جب کہ مارچ میں یہ شرح 44 فی صد تھی۔
گورنر ڈی سینٹیس کو صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں ٹرمپ کا بڑا حریف سمجھا جا رہا ہے لیکن پول کے مطابق اُن کی حمایت میں کمی آئی ہے۔ پول کے مطابق 19 فی صد ری پبلکنز چاہتے ہیں کہ وہ نامزدگی حاصل کریں، حالاں کہ گزشتہ ماہ یہ شرح 30 فی صد تھی۔
ٹرمپ بمقابلہ بائیڈن
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر سابق صدر ٹرمپ آئندہ برس کے صدارتی الیکشن میں جو بائیڈن کے مدِمقابل آئے تو یہ کسی حد تک جو بائیڈن کی صدارتی مہم کے لیے اچھا ہو گا۔
یونیورسٹی آف ورجینیا کے شعبہ سیاسیات کے ڈائریکٹر لیری سیبٹو کہتے ہیں کہ اس سے آزاد ووٹرز ڈیمو کریٹک پارٹی کی جانب راغب ہو سکتے ہیں جس کا لامحالہ فائدہ جو بائیڈن کو ہو گا۔
SEE ALSO: ٹرمپ کے خلاف مقدمہ امریکی سیاست پر کیا اثرات مرتب کرے گا؟وائس آف امریکہ کی پیٹسی ودا کوسوارا سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر ٹرمپ نامزدگی حاصل کرنے میں ناکام بھی رہتے ہیں تو پھر بھی ری پبلکن پارٹی پر ٹرمپ کا اثرو رسوخ رہے گا۔ لہذٰا کوئی دوسرا اُمیدوار جو بائیڈن کے مدِ مقابل آیا تو اسے شکست دینا بھی صدر بائیڈن کے لیے آسان ہو گا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ٹرمپ ری پبلکن پارٹی کے صدارتی اُمیدوار نہ ہوئے تو وہ ری پبلکن اُمیدوار کی حمایت نہ کرنے کا اعلان کر کے ووٹ تقسیم کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔
فروری میں ایک ریڈیو انٹرویو کے دوران سابق صدر نے کہا تھا کہ اگر وہ صدارتی نامزدگی حاصل کرنے میں ناکام رہے تو پھر اُن کی حمایت کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ کون صدارتی نامزدگی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔
اگر ٹرمپ جیت گئے تو ؟
اگر ٹرمپ اس مقدمے میں قصوروار ثابت ہو گئے اور پھر وہ صدارتی الیکشن بھی جیت گئے تو پھر ایک سزا یافتہ مجرم ملک کا صدر ہو گا۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر رچرڈ پیئرس کہتے ہیں کہ "امریکی آئین میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو کسی شخص کو صدارتی الیکشن لڑنے سے روکتی ہو جسے کسی جرم میں سزا ہوئی ہو۔"
امریکہ میں صدارتی الیکشن لڑنے کے لیے تین شرائط ہیں جن میں ایک یہ کہ اُمیدوار کی عمر کم از کم عمر 35 برس ہو، وہ امریکہ میں پیدا ہوا ہو اور کم از کم 14 برس تک امریکہ میں مقیم رہا ہو۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ٹرمپ پر جرم ثابت ہو بھی گیا تو ان کے جیل جانے کے امکانات بہت کم ہیں۔ کیوں کہ ججز پہلی بار کاروباری ریکارڈ میں غلط بیانی ثابت ہونے پر شاذ و نادر ہی کسی کو قید کرنے کی سزا سناتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
لیکن ماہرین کے بقول ٹرمپ کو جن دیگر الزامات کا سامنا ہے ان میں 2020 کے صدارتی انتخابات میں نتائج پلٹنے کی کوشش کا الزام بھی شامل ہے، اس میں اُنہیں جیل کی سزا ہو سکتی ہے۔
رچرڈ پیئرس کہتے ہیں کہ یہ صورتِ حال بہت عجیب ہو گی کیوں کہ کوئی بھی صدر جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہتے ہوئے اپنے فرائضِ منصبی مؤثر انداز میں کیسے سرانجام دے گا۔ لیکن امریکی آئین میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ کوئی قیدی امریکہ کا صدر نہیں بن سکتا۔
لیکن سزا پانے کی صورت میں ٹرمپ اپنے لیے ووٹ کاسٹ نہیں کر سکیں گے۔ کیوں کہ ریاست فلوریڈا کا شمار امریکہ کی اُن 11 ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں قید کے دوران ووٹنگ سے روکنے کے سخت قوانین نافذ ہیں۔