پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے کہا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے لیے نرم گوشہ اور عدم سوچ بچار پر مبنی پالیسی کا نتیجہ ہے جو عوامی توقعات اور خواہشات کے بالکل منافی ہے۔
قومی سلامتی کونسل کا اکتالیسواں اجلاس جمعے کو وزیراعظم ہاؤس میں منعقد ہوا۔ اجلاس کی صدارت وزیراعظم شہبازشریف نے کی اور اس میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا، فضائیہ اور بحریہ کے سربراہان اور وفاقی وزرا برائے دفاع، خزانہ اور اطلاعات نے بھی شرکت کی۔
اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے دہشت گردی کی حالیہ لہر کو کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ نرم گوشہ اور عدم سوچ بچار پر مبنی پالیسی کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی سےمتعلق پالیسی عوامی توقعات اور خواہشات کے بالکل منافی ہے جس کے نتیجے میں دہشت گردوں کو بلا رکاوٹ واپس آنے کی نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ ٹی ٹی پی کے خطرناک دہشت گردوں کو اعتماد سازی کے نام پر جیلوں سے رہا بھی کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ واپس آنے والے خطرناک دہشت گردوں اور افغانستان میں بڑی تعداد میں موجود مختلف دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے مدد ملنے کے نتیجے میں ملک میں امن واستحکام متاثر ہوا۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان سے مذاکرات کا آغاز کیا گیا تھا اور مذاکرات کے لیے اعتماد سازی کے اقدامات بھی کیے گئے تھے۔ ان مذاکرات میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور کور کمانڈر پشاور لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
پاکستان تحریکِ انصاف ملک میں اور بالخصوص خیبر پختونخوا میں قیامِ امن کے لیے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا دفاع کرتی آئی ہے۔
’دہشت گردی کے خلاف آپریشن کے لیے کمیٹی‘
ا گرچہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا ایجنڈا جاری نہیں کیا گیا تھا تاہم توقع ظاہر کی جارہی تھی کہ اجلاس میں ملک میں امن و امان، معاشی حالات اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پیدا شدہ صورت حال پر بات چیت ہوگی۔
البتہ اجلاس کے اعلامیے میں انتخابات یا ملک کی سیاسی صورتِ حال سے متعلق براہ راست کوئی بات نہیں کہی گئی ہے بلکہ سرکاری بیان کے مطابق دہشت گردی اور امن و مان کی صورتِ حال ہی اس اجلاس کا محور رہے ہیں۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں دہشت گردی سے مقابلے کے لیے ’ہمہ جہت جامع آپریشن‘ شروع کرنے کی منظوری دی گئی ہے جس کے لیے اعلی سطح کی ایک کمیٹی تشکیل بھی دی گئی جودو ہفتوں میں سفارشات پیش کرے گی۔
اعلامیے کے مطابق اجلاس میں حال ہی میں علیحدگی پسند تنظیم بلوچ نیشنل آرمی اور ’براس‘ کے بانی و راہنما گلزار امام عرف شمبے کی گرفتاری پر انٹیلی جنس اداروں کو سراہا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی نے، ’’بڑھتی ہوئی نفرت انگیزی، معاشرے میں تقسیم اور در پردہ اہداف کی آڑ میں ریاستی اداروں اور ان کی قیادت کے خلاف بیرونی اسپانسرڈ زہریلا پراپیگنڈا سوشل میڈیا پرپھیلانے کی کوششوں کی شدید مذمت کی اور کہاکہ اس سے قومی سلامتی متاثر ہوتی ہے۔‘‘
خیال رہے کہ اس سے قبل حکومت پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت اور سوشل میڈیا پر اس کے کارکنان پر قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانے کے الزامات عائد کرتی رہی ہے۔ تاہم پی ٹی آئی ان الزامات کی تردید کرتی ہے اور مسلم لیگ ن کی سربراہی میں اتحادی حکومت پر ملکی اداروں کے درمیان محاذ آرائی کو ہوا دینے کا الزام عائد کرتی ہے۔
’سیاسی صورتِ حال سے متعلق اعلامیہ واضح نہیں‘
مبصرین کو توقع تھی کہ عدلیہ اور حکومت کے درمیان پیدا شدہ ڈیڈ لاک کی صورت حال، اجلاس میں زیر بحث آئے گی تاہم اجلاس کے اعلامیے میں موجودہ سیاسی صورتِ حال پر کوئی براہِ راست بات سامنے نہیں آئی ہے۔
اجلاس سے قبل وائس آف امریکہ کے نمائندہ علی فرقان سے بات کرتے ہوئے سابق سیکرٹری دفاع جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے کہا تھا کہ حکومت چاہے گی کہ عسکری قیادت یہ کہہ دے کہ ملک میں امن و امان کی صورتِ حال اس قابل نہیں کہ وہ انتخابات کے لیے اپنی خدمات دے سکیں۔ تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت عسکری قیادت سے اپنے موقف پر تائید حاصل کرنے میں کامیاب نہیں رہے گی۔
قومی سلامتی کے امور کی تجزیہ نگار ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں کہ ملک سیاسی، معاشی اور سماجی کے بعد اب آئینی بحران میں گھر چکا ہے اور حکومت نے اپنے سیاسی بیانیے کی توثیق کے لئے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو ماننے سے حکومت کے انکار کے بعد آئینی اداروں کے درمیان تناؤ واضح ہوچکا ہے۔ تاہم وہ کہتی ہیں کہ ایسی صورتِ حال میں قومی سلامتی کمیٹی کسی واضح حکمت عملی یا اعلامیے کے ساتھ سامنے آتی دکھائی نہیں دیتی ہے۔
ہما بقائی نے کہا کہ صورتِ حال میں بہتری اسی وقت ممکن ہوسکے گی جب فوجی قیادت مشاورت کے بجائے خود فیصلہ کن کردار میں سامنے آئے جو کہ موجودہ حالات میں دکھائی نہیں دیتا۔
’عمران خان بھی اپنی تائید میں بیان نہیں لے پائے تھے‘
قومی سلامتی کمیٹی قومی سلامتی کے معاملات پر فیصلہ سازی کرنے والے بنیادی ادارے کی حیثیت میں کام کرتی ہے۔
سابق سیکریٹری دفاع رہنے والے نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ ملکی امور سے متعلق کوئی بھی بڑا فیصلہ یا صورت حال چاہے وہ خارجہ پالیسی سے متعلق ہو، معیشت یا داخلی و خارجی سلامتی سے، اس کمیٹی میں زیر بحث آتے ہیں۔
سیاسی و عسکری قیادت پر مشتمل اس کمیٹی کا اجلاس گزشتہ سال اس وقت بھی منعقد کیا گیا تھا جب سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے سائفر کو بنیاد بنا کر دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت کو بیرونی سازش کے ذریعے ختم کیا جارہا ہے۔
جنرل(ر) نعیم خالد لودھی نے کہا کہ سائفر کے معاملے پر قومی سلامتی کمیٹی کے دو اجلاس منعقد ہوئے تھے جن میں سے ایک کی صدارت اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان جب کہ دوسرے کی شہباز شریف نے کی۔
وہ کہتے ہیں کہ دونوں وزرائے اعظم نے کوشش کی کہ کمیٹی کا کوئی ایسا اعلامیہ سامنے لایا جائے جس سے ان کے مؤقف کی تائید ہوسکے لیکن انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی تھی۔
پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے قومی سلامتی کمیٹی اجلاس طلب کرنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہےاور اور دعویٰ کیا کہ حکومت سیکیورٹی کو انتخابات ملتوی کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کرے گی۔