ایک روز قبل روس کے ساتھ اُن کی انتظامیہ کے رابطوں کی چھان کرنے والے تفتیشی ادارے کے سربراہ کو برطرف کرنے کے بعد، صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کی میزبانی کی، جس دوران مذاکرات میں زیادہ تر شام پر گفتگو مرتکز رہی۔
ملاقات کے بعد، ٹرمپ نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’لاوروف کے ساتھ میری ملاقات اچھی رہی۔ میرے خیال میں یہ بہت، بہت ہی اچھی رہی‘‘۔
اوول آفس میں سابق وزیر خارجہ ہینری کسنجر کے ہمراہ بیٹھے ہوئے، ٹرمپ نے روسی سفارت کار سے اپنی بات چیت کے بارے میں کچھ تفصیل پیش کی۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’میرے خیال میں شام کے معاملے پر ہم بہتر طور پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ میرے خیال میں اچھی، بہتر اور بہت کی مثبت پیش رفت ہو رہی ہے۔ ہم قتل و غارت گری کو بند کریں گے‘‘۔
جنوری میں عہدہ سنبھالنے کے بعد ٹرمپ کی یہ کسی اعلیٰ سطحی روسی سفارت کار سے پہلی بالمشافیٰ ملاقات تھی۔ لاوروف وائٹ ہاؤس پہنچے اور ویسٹ اگزیکٹو میں داخل ہوئے، جہاں کسی اخباری نمائندے کو آنے کی اجازت نہیں تھی۔
ملاقات کے بعد روسی سفارت خانے میں اخباری نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے، لاوروف نے کھل کر بات کی۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’ہم نے شام پر تفصیلی بات چیت کی، جس ضمن میں اُن امور پر تبادلہٴ خیال ہوا جن کا تعلق کشیدگی کو کم کرنے کے لیے تشکیل دیے گئے علاقوں کے بارے میں تھا۔ اس حقیقت پر ہمارے خیالات مشترکہ تھے کہ تشدد کو ختم کرنے کے لیے شام میں جنگ بندی پر کس طرح عمل درآمد کیا جائے۔ انسانی ہمدردی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کیا اقدام ضروری ہیں‘‘۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ بات چیت میں دیگر علاقائی تنازعات پر بھی گفتگو شامل تھی۔
بیان کے مطابق، ’’صدر ٹرمپ نے اس ضرورت پر زور دیا کہ خاص طور پر شام کے تنازع کے خاتمے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ اسد کی حکومت، ایران اور اُس کی درپردہ لڑائیوں کو لگام دینے کے لیے روس کو آگے بڑھنا ہوگا‘‘۔
بیان میں اس جانب توجہ دلائی گئی ہے کہ ٹرمپ نے روس کے ساتھ مضبوط باہمی تعلقات استوار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، جس میں وسیع تر موضوع شامل ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر نے یوکرین کے سوال کو اٹھایا، اور اپنی انتظامیہ کے اس عزم کا اظہار کیا کہ اس تنازع کو حل کرنے کی کوشش کی جائے، اور مِنسک سمجھوتوں پر مکمل عمل درآمد کے ضمن میں روس کی ذمہ داری پر زور دیا۔ اُنھوں نے مشرق وسطیٰ اور دیگر مقامات پر تنازعات کے خاتمے کے لیے وسیع تر تعاون کے امکان کو اجاگر کیا‘‘۔
اِس سے قبل، بدھ کی صبح محکمہٴ خارجہ میں مذاکرات کے لیے آمد کے موقع پر، امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹِلرسن نے لاوروف کا خیرمقدم کیا، جس دوران، بتایا جاتا ہے کہ شام اور یوکرین کے امور پر دونوں ملکوں کے اختلافات پر گفتگو ہوئی ہوگی۔
ٹِلرسن نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’میں وزیر خارجہ کا امریکی محکمہ ٴخارجہ آمد پر خیرمقدم کرتا ہوں اور واشنگٹن کا دورہ کرنے پراُن کا شکرگزار ہوں، تاکہ ہم اپنا مکالمہ جاری رکھ سکیں اور جس تبادلہٴ خیال کا ماسکو میں آغاز ہوا تھا اسے جاری رکھ سکیں‘‘۔
ٹِلرسن اور لاوروف کی گذشتہ ماہ ماسکو میں ملاقات ہوئی، ایسے میں جب شام کے فضائی اڈے کے خلاف امریکی بم حملوں کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ بڑھا ہوا تھا، جس سے قبل شامی افواج نے مبینہ طور پر کیمیائی حملے کیے، جن میں شہری ہلاک ہوئے، جن میں متعدد بچے بھی شامل تھے۔
سابق امریکی سفیر الیگزینڈر ورشبو، جو اِن دِنوں ’ایٹلانٹک کونسل رسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ کے ساتھ وابستہ ہیں، نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ دونوں سفارت کار اپنی اپنی باتیں کریں گے۔
ورشبو کے بقول، ’’شام کے معاملے پر ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک ہی جیسی بات کی جارہی ہے، جو یہ ہے کہ خانہ جنگی کا خاتمہ ہو اور کسی قسم کی نئی عبوری حکومت بنے جو شام کے تمام لوگوں کے لیے قابل قبول ہو۔ لیکن، جب آپ تفصیل میں جاتے ہیں تو پھر یوں لگتا ہے کہ ہم کسی بات پر متفق نہیں‘‘۔