روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ تین ماہ قبل جب سے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالا ہے، روس کے امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے ہیں۔
بدھ کے روز سرکاری تحویل میں کام کرنے والے ٹیلی ویژن چینل، ’میر‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں، پیوٹن نے کہا ’’یہ کہا جا سکتا ہے کہ عملی سطح پر اعتماد کے ساتھ کام کرنے کی سطح، خصوصی طور پر فوجی سطح پر، بہتر نہیں ہوئے بلکہ زیادہ امکان یہ ہے کہ یہ خراب ہوئے ہیں‘‘۔
پیوٹن نے اِن خیالات کا اظہار ایسے وقت کیا ہے جب دونوں ملکوں کے چوٹی کے سفارت کار، امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹِلرسن اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف بات چیت کے لیے مل بیٹھے ہیں، جس میں شام کے اکیلے رہ جانے والے صدر بشار الاسد کے لیے روسی حمایت اور شہری آبادی پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے جواب میں گذشتہ ہفتے شام کے خلاف امریکہ کا میزائل حملے کا معاملہ شامل ہے۔
امریکی قومی سلامتی کے اہل کاروں نے منگل کے روز کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کا الزام اسد پر عائد کرتے ہوئےاس روسی دعوے کو مسترد کیا جس میں کہا گیا تھا کہ سارن گیس کا حملہ شامی باغیوں کی جانب سے کی جانے والی اشتعال انگیزی ہو سکتی ہے یا پھر اُس وقت پیدا ہوا جب شامی لڑاکا طیاروں نے باغیوں کے بارودی ذخیرے کو نشانہ بنایا۔
پیوٹن نے سوال کیا کہ ’’اِس بات کا کیا ثبوت ہے کہ شامی فوجوں نے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے؟‘‘ اُنھوں نے کہا کہ ’’کوئی بھی نہیں۔ لیکن اس سے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ضرور ہوئی ہے۔ یہ ماننے کی بات ہے‘‘۔
سرد مہری کی نوعیت کا خیرمقدم
لاوروف نے ٹِلرسن کا سرد مہری کے ساتھ خیرمقدم کیا، ایسے میں جب دونوں اپنی پہلی ملاقات کے لیے سامنے آئے۔ اُن سے اُنھوں نے یہ کہا کہ، بقول اُن کے، امریکہ کی جانب سے سامنے آنے والی ’’انتہائی مبہم‘‘ اور ’’متضاد‘‘ قسم کے بیانات کے بارے میں روس کے پاس بہت سے سوال ہیں، جن سے ٹرمپ کے ’’اصل مقاصد‘‘ کو جاننے میں مدد ملے گی۔