افغانستان میں استحکام کے حصول کے لیے حکمتِ عملی تشکیل دینے کے حوالے سے ابھی ٹرمپ انتظامیہ کو کام مکمل کرنا ہے۔ پینٹاگان کے ایک اہل کار نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا ہے کہ حکمتِ عملی کو آخری شکل دینے اور اعلان میں ابھی چند ’’ہفتے‘‘ لگ سکتے ہیں۔
جب صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے ایک اخباری نمائندے نے پوچھا آیا وہ اس جنگ کے شکار ملک میں اضافی امریکی فوج تعینات کریں گے، جس پر صدر نے کہا کہ ’’ہم دیکھیں گے‘‘۔
ایسے میں جب ٹرمپ پینٹاگان کا دورہ کر رہے ہیں، اِسی موقعے پر نائب صدر، مائیک پینس نے وزیر دفاع جِم میٹس؛ وزیر خارجہ ریکس ٹِلرسن، جوائنٹ چیفز آف اسٹاف جنرل جو ڈَنفرڈ اور دیگر کلیدی اہل کاروں سے ملاقات کی۔
پینٹاگان میں ہونے والی ملاقات کے دوران ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا گیا کہ دورے میں صدر کو ’’عالمی سلامتی کے امور‘‘ پر تفصیلی بریفنگ دی جائے گی۔
سرکاری طور پر اجلاس کا ایجنڈا جاری نہیں کیا گیا۔
امریکی فوجی صدر دفتر کا یہ دورہ ایسے وقت کیا جا رہا ہے، جس سے ایک ہی روز قبل صدر نے وائٹ ہاؤس میں اپنی قومی سلامتی کی ٹیم کے ساتھ اجلاس کیا، جس دوران جنوبی ایشیا سے متعلق حکمتِ علمی پر غور کیا گیا۔
امریکی اہل کاروں نے کہا ہے کہ صدر کی ٹیم خطے کی سب سے بڑی پہیلی بوجھنے کے معاملے پر بٹی ہوئی ہے، آیا افغانستان میں استحکام کس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے۔ فوج سے وابستہ اعلیٰ حکام، جن میں میٹس، ڈنفرڈ نیشنل سکیورٹی کے مشیر ایچ آف مک ماسٹر۔۔ سارے زمین پر موجود اپنے کمانڈر سے اتفاق کرتے ہیں کہ افغانستان میں فوج میں اضافہ اس پیچیدہ حل کا ایک جزو ہونا چاہیئے۔
تاہم، ’وڈرو ولسن سینٹر‘ کے ایشیا پروگرام کے معاون سربراہ، مائیکل کوگلمن نے مطابق، وائٹ ہاؤس حکمتِ عملی کے سربراہ، اسٹیو بینن ابھی کسی حل تک نہیں پہنچے۔
کوگلمن نے بدھ کے روز ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’بینن کا دفتر ہی حقیقی فیصلے کرتا ہے۔ عام طور پر بینن کا گروپ دنیا بھر میں امریکی موجودگی کو کم کرنے کا خواہاں ہے، جس کے لیے خود صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ بھی یہی کچھ چاہتے ہیں‘‘۔
صدر کو عراق، شام اور افغانستان میں داعش کے خلاف لڑائی پر ایک تفصیلی بریفنگ دی گئی۔