پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے امریکی سینیٹ کے ایک نمائندہ وفد نے دہشت گردی کے خلاف پاکستانی فوج کی کوششوں کو سراہتے ہوئے سلامتی سے متعلق درپیش چیلنجز سے نبردآزما ہونے کے لیے قریبی تعاون کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سربراہ ریپبلکن سینیٹر جان مکین کی قیادت میں پانچ رکنی وفد نے پیر کو افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان کا دورہ کیا، جہاں انھیں سرحد پر نو تعمیر شدہ قلعوں اور چوکیوں کے علاوہ علاقے میں قائم اسکولوں اور اسپتالوں سمیت دیگر بنیادی ڈھانچے سے متعلق تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر جان مکین کا کہنا تھا کہ امریکی سینیٹ کے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ان کے اس اہم دورے کا مقصد چیلنجوں اور کامیابیوں کو سمجھنا تھا، اور ان کے بقول، ’’درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے باہمی اور قریبی تعاون کی ضرورت ہے‘‘۔
بقول اُن کے، "ہم نے بہت سے امور بشمول افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات اور سرحد پر تعاون سے متعلق بات چیت کی اور ہمیں اعتماد ہے کہ صحیح حکمت عملی اور تعاون سے ہم اس طویل جدوجہد میں کامیابی کو دیکھ سکتے ہیں۔"
پاکستانی فوج کے شعبہٴ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا کہ امریکی سینیٹروں کے وفد نے متنازع علاقے کشمیر کو منقسم کرنے والی عارضی حد بندی (لائن آف کنٹرول) کا دورہ بھی کرنا تھا۔ لیکن، خراب موسم کے باعث ایسا نہیں ہو سکا۔
قبل ازیں، امریکی سینیٹروں نے اسلام آباد میں وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کی، جس کے بارے میں ایک سرکاری بیان میں بتایا گیا کہ وزیر اعظم نے امریکی وفد سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان میں پائیدار امن کے حصول کے لیے امریکہ، افغانستان اور پاکستان کے درمیان مضبوط شراکت داری شرط ہے۔
انھوں نے افغانستان میں امن و استحکام کے مقصد کے حصول کے لیے پاکستان کے ہر ممکن تعاون کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانوں کی شمولیت اور ان کی زیر قیادت سیاسی مذاکرات کی ٹھوس کاوشوں کی ضرورت ہے۔
وفد میں سینیٹر مکین کے علاوہ ریپبلکن لنڈسی گراہم اور ڈیوڈ پرڈیو اور ڈیموکریٹ الزبیتھ وارَن اور شیلڈن وائٹ ہاؤس شامل تھے۔
سرکاری بیان کے مطابق سینیٹر مکین نے اتفاق کیا کہ خطے میں امن و استحکام کے لیے پاکستان اور امریکہ کے درمیان جاری تعاون بہت اہم ہے۔
یہ دورہ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ افغانستان سے متعلق اپنی نئی حکمت عملی کا اعلان کرنے والی ہے اور امریکی ایوانوں میں پاکستان سے متعلق ان تحفظات کی گونج میں بھی اضافہ ہوا کہ طالبان اپنی عسکریت پسندی کو بڑھانے کے لیے مبینہ طور پر پاکستانی سرزمین استعمال کر رہے ہیں۔
تاہم، پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتا آیا ہے کہ وہ اپنے ہاں موجود ہر قسم کے دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کر رہا ہے اور اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے عزم پر سختی سے کاربند ہے۔
سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر اے زیڈ ہلالی نے ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں امریکی سینیٹ کے وفد کے دورہٴ پاکستان کو دونوں ملکوں کے درمیان پائے جانے والے شک و شبہات کو دور کرنے کے لیے معاون قرار دیا۔
اُنھوں نے کہا کہ،"دونوں ملکوں کے درمیان ابہام کی بجائے اگر ورکنگ ریلیشن شپ رہتی ہے تو یہ بہتر رہے گا اور سفارتی ذرائع جتنے کھلے رہیں اتنا ہی بہتر رہے گا میرے خیال میں یہ خطے کے لیے بھی ضروری ہے دونوں ملکوں کے اچھے تعلقات کے لیے بھی ضروری ہے اور اس انداز سے دونوں ملکوں میں جو بہت سے پیچیدگیاں آ جا تی ہیں ان کو بھی سلجھانے میں مدد ملے گی۔"
امریکی وفد نے اتوار کو پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے علاوہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے بھی ملاقاتیں کی تھیں۔