خلائی تسخیر کے انسانی مشن پروگرام کو بحال کیا جائے: ٹرمپ

ٹرمپ نے کہا ہے کہ ’’یہ اقدام سنہ 1972 میں پہلی بار چاند پر امریکی خلا بازوں کو اتارنے کے بعد طویل مدتی تسخیر اور استعمال کے کام کے سلسلے میں بڑی اہمیت کا حامل ہے‘‘

اِس بات کا عہد کرتے ہوئے کہ ’’امریکہ ایک بار پھر چاند پر قدم رکھے گا‘‘، صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پیر کے روز ’نیشنل ایئر اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن‘ (ناسا) کو احکامات دیے کہ تسخیر کے ضمن میں انسان کو خلا میں بھیجنے کے پروگرام کو بحال کیا جائے، جسے 2011ء میں معطل کیا گیا تھا۔

ٹرمپ نے کہا کہ ’’یہ اقدام سنہ 1972 میں پہلی بار چاند پر امریکی خلا بازوں کو اتارنے کے بعد طویل مدتی تسخیر اور استعمال کے کام کے سلسلے میں بڑی اہمیت کا حامل ہے‘‘۔

صدر کے الفاظ میں ’’اس بار، ہم نہ صرف اپنا پرچم گاڑیں گے اور اپنا نقش قدم چھوڑیں گے، آخر کار ہم مریخ جانے کے مشن کی بنیاد رکھیں گے۔ اور شاید، ایک دِن آئے گا جب اِس سے آگے والی کئی ایک دنیاؤں کی جانب قدم بڑھائیں گے‘‘۔

وائٹ ہاؤس میں منعقد ہونے والی اِس تقریب میں، اپنے گرد متعدد خلانوردوں اور سابق خلانوازوں کی موجودگی میں، ٹرمپ نے نیل آرمز اسٹرانگ کے الفاظ میں سے ایک اقتباس پیش کیا، جس مشہور جملے میں اُنھوں نے کہا تھا کہ ’’یہ انسان کا چھوٹا سا قدم ہے؛ تاہم، بنی نوع انسان کے لیے ایک بڑا قدم ہے‘‘۔ آرمز اسٹرانگ نے یہ بات 1969ء میں پہلی بار چاند کی سرزمین پر قدم رکھتے وقت کہی تھی۔

اُنھوں نے اعلان کیا کہ ’’قابلِ تقلید مستقبل اور خلا میں امریکہ کی فخریہ تقدیر کے حوالے سے یہ ایک بہت ہی بڑا قدم ہے‘‘۔

تقریب میں شرکت کرنے والوں میں چاند پر قدم رکھنے والے 12 انسانوں میں سے دو شامل تھے؛ ایڈون آلڈرن جنھوں نے آرمز اسٹرانگ کے ہمراہ چاند کی سرزمین پر تاریخی قدم رکھا تھا؛ اور ہریسن جیک شمت، جنھوں نے اپالو 17 کے عملے کے رُکن کی حیثیت سے چاند پر قدم رکھا تھا، جو آخری انسانی مشن 1972 میں چاند پر اترا تھا۔

ٹرمپ نے توجہ دلائی کہ دستاویز پر دستخط کیے جانے کی یہ تقریب، اپالو 17 کے کمانڈر ایوگنے سارنن کے ہمراہ، شمت کی چاند پر چہل قدمی کو پورے 45 برس گزرنے کے بعد منعقد ہو رہی ہے۔