روزنامہ ’نیو یارک ٹائمز‘ نے خبر دی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ جنگ کے روایتی میدان سے ہٹ کر ڈرون حملوں اور کمانڈو نوعیت کے چھاپوں سے متعلق اوباما دور میں عائد کردہ کلیدی قدغنوں کو اٹھانے کی تیاری کر رہی ہے۔ یہ بات داخلی سوچ بچار سے مانوس اہل کاروں کے حوالے سے بتائی گئی ہے۔
ایسی تبدیلیاں لانے سے اُن ملکوں میں انسدادِ دہشت گردی کے مشن کی راہ ہموار ہوگی، جہاں اسلامی شدت پسند سرگرم عمل ہیں؛ لیکن امریکہ نے اس سے قبل اُنھیں ہلاک کرنے یا پکڑنے کا کام انجام نہیں دیا۔
رپورٹ میں اہل کاروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اِس ضمن میں صدر ٹرمپ کے چوٹی کے قومی سلامتی کے مشیروں نے دو عدد قوائد میں رعایت برتنے کی تجویز پیش کی ہے۔
اول یہ کہ اہداف کو نشانہ بنانے سے متعلق فوج اور سی آئی اے کے مشن، جو اِس وقت عام طور پر اعلیٰ سطحی شدت پسندوں تک محدود تھے، جن سے امریکیوں کو ’’مستقل اور کھلا خدشہ درپیش تھا‘‘؛ اُسے وسعت دے کر اب پیدل جہادیوں تک بڑھا دیا جائے گا، جو خاص مہارت کے مالک نہیں یا جن کا کوئی قائدانہ کردار نہیں ہے۔
دوئم، مجوزہ ڈرون کارروائیوں اور چھاپوں کے لیے اب پیشگی اعلیٰ سطحی اجازت نامہ درکار نہیں ہوگا۔
تاہم، انتظامیہ کے اہل کاروں نے اس بات سے بھی اتفاق کیا ہے کہ ایسی کارروائیوں کے لیے ایک کلیدی دشواری کو مدِ نظر رکھا جانا چاہیئے اور وہ یہ ہے کہ ’’اس بات کو یقینی بنایا جائے‘‘ کہ کسی طور پر بھی شہری آبادی کو کوئی جانی نقصان نہ پہنچے۔
اس تجویز پر انتظامیہ کے اہل کاروں نے کئی ماہ تک ضابطوں کی جانچ پڑتال پر غور و خوض کیا؛ اور رپورٹ کے مطابق، اب اس پر صدر ٹرمپ کے دستخط ہونا باقی ہیں۔
شہری آبادی کو تحفظ دینے کے معاملے کے علاوہ، امکان ہے کہ انسانی حقوق کے گروپ دیگر ممکنہ تبدیلیوں پر نکتہ کریں گے۔
یہ پالیسی اپنائے جانےکے بعد، القاعدہ، داعش اور دیگر جہادیوں کے خلاف تواتر سے مزید کارروائیاں کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔
رپورٹ کے مطابق، ایسی کارروائیاں اُن ملکوں میں بھی کی جا سکتی ہیں جہاں کئی برسوں سے امریکہ داعش کے شدت پسندوں کے خلاف حربی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے، جن میں یمن، صومالیہ اور لیبیا شامل ہیں؛ اور اب اِن خطوں کے علاوہ اکا دکا افریقہ، ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے غیر حربی علاقوں تک بڑھایا جا سکے گا، جہاں دہشت گرد سرگرم ہیں۔