اسامہ بن لادن کے خلاف خفیہ امریکی مشن کے منصوبہ ساز جانتے تھے کہ ناکامی کی صورت میں آئندہ پھر ایسی کوئی کارروائی ناممکن ہو گی اور آپریشن کے غیر متوقع آغاز پر یوں لگا کہ شاید یہ خدشہ حقیقت بن جائے۔
پاکستان کے شمالی شہر ایبٹ آباد میں دو مئی کو ہونے والی کارروائی کی تفصیلات سے باخبر امریکی حکام نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر خبررساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کو مفصل معلومات بتاتے ہوئے کہا کہ تکنیکی وجوحات کے باعث ایک ہیلی کاپٹر ناکارہ ہونے کے بعد اسے تباہ کرنے کے ساتھ ہی اس آپریشن میں مخالفین کو بھنک پڑے بغیر اُن پر حملے کا منصوبہ چوپٹ ہو گیا۔
امریکی کمانڈوز نے فضا میں منڈلاتے ہیلی کاپٹروں سے رسوں کی مدد سے ہمہ وقت بن لادن کی تین منزلہ پناہ گاہ کی چھت اور احاطے میں اترنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا لیکن اُنھوں نے مجبوراً عمارت کی نچلی منزل سے اندر داخل ہو کر منزل با منزل تلاشی شروع کی۔ اُن کا اندازہ تھا کہ اگر بن لادن عمار ت میں ہوا تو وہ تیسری منزل پر ہوگا اور یہ درست ثابت ہوا۔
اس آپریشن کی ذمہ داری امریکی اسپیشل فورس نیوی سیل کی ’ٹیم سکس‘ کو سونپی گئی تھی جو 2001ء سے مشرقی افغانستان میں بن لادن کی تلاش میں مصروف تھی۔
افغان شہر جلال آباد سے اُڑان بھرنے والے پانچ ہیلی کاپٹروں میں سے تین پاکستان کے ایک غیر آباد علاقے میں اُتر گئے۔ ان خاصی گنجائش والے ’شنوک‘ ہیلی کاپٹروں میں دو درجن اہلکار سوار تھے۔
دو ’بلیک ہاک‘ ہیلی کاپٹر 23 کمانڈوز، ایک مترجم اور کائرونامی تربیت یافتہ کتے کو لے کر القاعدہ کے رہنما کی پناہ گاہ پہنچے۔ ان ہیلی کاپٹروں کی آواز کو کم سے کم رکھنے اور ریڈار پر ان کی نشاندہی نا ہونے کے لیے ان کی ساخت میں خصوصی تبدیلیاں کی گئی تھیں جن کی وجہ سے ہیلی کاپٹروں میں وزن کی حد کا تعین گراموں میں کیا گیا۔
منصوبے کے مطابق 19 کمانڈوز نے عمارت میں داخل ہونا تھا اور اُن میں سے تین کا کام بن لادن کو ڈھونڈنا تھا۔ منصوبہ سازوں نے فیصلہ کیا تھا کہ دونوں بلیک ہاک دو منٹ کے اندر نیوی سیلز کو بن لادن کی پناہ گاہ تک پہنچا کر وہاں سے روانہ ہو جائیں گے تاکہ مقامی رہائشیوں کو یہ تاثر ملے کہ وہ پاکستانی ہیلی کاپٹر ہیں اور قریب واقع فوجی افسران کی تربیت گاہ کی طرف آئے تھے۔
ایک بلیک ہاک کو عمارت کے احاطے کے عین اوپر منڈلانا تھا جب کہ دوسرے نے کچھ کمانڈوز عمارت کی چھت پر اُتارنے کے بعد بقیہ اہلکاروں بشمول مترجم اور ’کائرو‘ کو احاطے کے باہر چھوڑنا تھا، جن کا کام فرار ہونے والے کسی شخص اور وہاں پہنچنے والی پاکستانی سکیورٹی پر نظر رکھنا تھا۔
منصوبے کے مطابق اگر پاکستانی فوجی وہاں پہنچتے تو امریکی کمانڈوز نے عمارت میں اکٹھا ہو کر براہ راست جھڑپ سے محفوظ رہنا تھا اور اس دوران واشنگٹن میں موجود حکام اُن کی باحفاظت واپسی کے انتظامات کرتے۔
لیکن یہ منصوبہ اُس وقت ناکام ہو گیا جب احاطے میں موجود ہیلی کاپٹر کو ہنگامی لینڈنگ کرنا پڑی اور اس کا پچھلا حصہ 12 فٹ اونچی دیوار سے ٹکراگیا اور تمام اہلکاروں کو احاطے کے باہر ہی اُترنا پڑا۔ اس واقعے کے بعد دوسرے بلیک ہاک نے فضا میں منڈلانے کا خطرہ مول لیے بغیر تمام اہلکاروں کو کمپاؤنڈ کے باہر ہی اُتار دیا۔
امریکی کمانڈوز نے اس صورت حال کے لیے بھی تیاری کر رکھی تھی اور اُنھوں نے بارودی مواد کا استعمال کرتے ہوئے دیواروں اور کھڑیوں میں راستہ بناتے ہوئے عمارت میں داخل ہونا شروع کیا۔ اُن کو سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ہر منزل پر رکاوٹوں کو دھماکا خیز مواد سے اُڑانا پڑا اور اُنھوں نے عمارت میں موجود ایک شخص کی جانب سے فائرنگ کا جواب بھی دیا۔
عمارت میں کل تین مردوں اور ایک خاتون کو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔ عمارت میں بن لادن کے کمرے کے باہر برآمدے سمیت ہر منزل پر بچے بھی موجود تھے۔
امریکی کمانڈوز کا بن لادن سے آمنا سامنا اُس کے کمرے کے باہر برآمدے میں ہوا اور امریکیوں نے اسے فوراً پہچان لیا۔ بن لادن اُنھیں دیکھ کر اپنے کمرے میں داخل ہو گیا اور تینوں اہلکار یہ سمجھتے ہوئے اُس پر لپکے کہ وہ ہتھیار لینے کے لیے بھاگا ہے۔
کمرے میں دو خواتین بن لادن کے سامنے کھڑی چیخ و چلارہی تھیں۔ ایک کمانڈو نے دونوں خواتین کو کھینچ کر آگے سے ہٹایا کیوں کہ یہ خطرہ تھا کہ اُنھوں نے خودکش جیکٹیں نا پہنی ہوں۔
پیچھے آنے والے امریکی کمانڈو نے ایک گولی بن لادن کی چھاتی پر ماری اور دوسری سر میں، اور یوں یہ مرحلہ چند سیکنڈوں میں مکمل ہو گیا۔
اُدھر وائٹ ہاؤس کے سچوایشن روم کو اسامہ کی موجودگی کی اطلاع ’جرینیومو‘ کے مخصوص الفاظ کہہ کر دی گئی۔
جب نیوی سیلز شناخت کے لیے بن لادن کی لاش کی تصاویر لے رہے تھے دوسرے اہلکاروں کو وہاں سے ایک کلاشن کوف اور ایک روسی ساختہ ماکاروف پستول بھی ملی لیکن بن لادن نے اُنھیں ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔
اسامہ بن لادن تک پہنچنے میں امریکی کمانڈوز کو تقریباً 15 منٹ کا وقت لگا جب کہ اگلے لگ بھگ 23 منٹ ناکارہ ہیلی کاپٹر کو تباہ کرنے میں لگے۔اس موقع پر ایک شنوک ہیلی کاپٹر عمارت پر پہنچا جس میں بن لادن کی لاش، تباہ ہونے والے ہیلی کاپٹر میں آنے والے اہلکاروں اور عمارت سے اکٹھی کی گئی دستاویزات اور دیگر اشیا کو منتقل کیا گیا۔
امریکی ہیلی کاپٹر واپس افغانستان کی بگرام ایئربیس پر پہنچے اور بن لادن کی لاش کو سمندر برد کرنے کے لیے فوراً امریکی بحری جہاز پر منتقل کر دیا گیا، تاکہ اس کی قبر کے مقام پر مقبرہ قائم ہونے کے امکانات ہی ختم ہو جائیں۔
آنے والے دونوں میں صدر براک اوباما نے ایبٹ آباد آپریشن میں حصہ لینے والے کمانڈوز سے ملاقات کی اُنھوں نے ہر اہلکار کا شکریہ ادا کیا لیکن یہ نہیں پوچھا کہ کس نے بن لادن پر گولیاں چلائی تھیں۔بن لادن کو ہلاک کرنے والے کمانڈوز چند ہفتوں میں دوبارہ تربیت کے لیے چلے جائیں گے اور جلد ہی پردیس میں نئی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔