صدر ٹرمپ نوبیل انعام کے لیے نامزد کیے جا سکتے ہیں

  • مدثرہ منظر

صدر ڈونلڈ ٹرمپ واشنگٹن میں نیشنل پیس آفیسرز میموریل سروس کی 37 ویں سالانہ تقریب میں ہاتھ ہلا رہے ہیں۔ 15 مئی 2018

شمالی کوریا کو ایٹمی پروگرام ترک کرنے پر آمادہ کرنے اور اسے مذاکرات کی میز پر لانے کی ٹرمپ کی کوششوں کو ان کی ایک اہم کامیابی تصور کیا جا رہا ہے۔ اور رپبلکن پارٹی انہیں امن کے نوبیل انعام کے لئے نامزد کرنا چاہتی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ گذشتہ ہفتے اس وقت بہت پر اعتماد نظر آئے جب انہوں نے شمالی کوریا سے رہا ہونے والے تین امریکیوں کو ملک میں خوش آمدید کہا۔ یہ وہ لمحہ تھا جس نے نہ صرف ان کے اپنے حامیوں بلکہ دیگر امریکیوں کو بھی اطمینان کا احساس دیا اور خود صدر کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا۔

ملک ندیم عابد نیویارک میں ڈیمو کریٹک نیشنل پارٹی کے چیئرمین ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شمالی کوریا کے ساتھ ممکنہ سربراہ کانفرنس کے علاوہ صدر کی مقبولیت میں اضافے کی اور بھی وجوہات ہیں جن میں ایک چیز جو زیادہ سامنے نہیں آئی ، وہ امریکی فوجیوں کی تنخواہوں میں اضافہ بھی ہے۔

رپبلکن پارٹی کی سینیئر ایڈوائزری کمیٹی کے رکن اور شکاگو کے ایک مضافاتی علاقے کے پولیس کمشنر طلعت رشید کہتے ہیں کہ صدر نے ٹیکسوں کے نظام میں جن اصلاحات کا اعلان کیا ہے اس سے کمپنیوں کی حالت بہت بہتر ہوئی ہے، معیشت کو ترقی ملی ہے اور ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔

صدر ٹرمپ کو یہ شکایت رہی ہے کہ ملکی معیشت میں نمایاں بہتری کے باوجود انہیں اس کا کریڈٹ نہیں دیا جاتا بلکہ اس کے بجائے ذرائع ابلاغ امریکی انتخابات میں روس کی مبینہ مداخلت کے معاملے کو زیادہ اچھالتے ہیں جبکہ ان کے نزدیک یہ صرف ایک بیکار چھان بین ہے۔

صدر ٹرمپ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ 12 جون کو سنگاپور میں شمالی کوریا کے لیڈر کم جانگ اُن کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ شمالی کوریا کو ایٹمی پروگرام ترک کرنے پر آمادہ کرنے اور اسے مذاکرات کی میز پر لانے کی ٹرمپ کی کوششوں کو ان کی ایک اہم کامیابی تصور کیا جا رہا ہے۔ اور رپبلکن پارٹی انہیں امن کے نوبیل انعام کے لئے نامزد کرنا چاہتی ہے۔ رپبلکن پارٹی کے سرگرم کارکن طلعت رشید اسے خوش آئند قرار دیتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ رپبلکن تو یہ بھی امید رکھتے ہیں کہ ٹرمپ اگلی مدت کے لئے بھی صدر منتخب ہو جائیں گے کیونکہ ڈیموکریٹس کے پاس کوئی نمایاں امیدوار ابھی تک نہیں ہے۔

تاہم ڈیموکریٹک پارٹی کے حامی اور عہدیدار ملک ندیم عابد کہتے ہیں کہ یہ مضحکہ خیز بات ہے۔ اور اسرائیل میں امریکی سفارتخانے کی یروشلم منتقلی کے بعد فلسطینیوں کے احتجاج اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتیں امن کے لئے منفی نتائج کی حامل ہیں۔

اگرچہ ٹرمپ کی مقبولیت کا گراف بہتر ہوا ہے مگر اب بھی ملک میں ان کے حامیوں اور مخالفین میں فرق واضح نظر آتا ہے۔ ہنری اولسن ETHICS& PUBLIC POLICY CENTER سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جتنا آپ کسی ایک جماعت کے حامی ہوں گے، جتنا آپ صدر ٹرمپ کے وفادار ہوں گے اتنا ہی امکان ہے کہ آپ سمجھیں گے کہ ڈیمو کریٹک پارٹی امریکہ کے لئے خطرہ ہے اور پھر ظاہر ہے آپ اس خطرے سے نمٹنے کے لئے جو ضروری ہو ا کریں گے۔

صدر ٹرمپ کی یہ مقبولیت کتنی پائیدار ہے اس بارے میں ماہرین کا یہی کہنا ہے کہ اس میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں اور ایسا ہر صدر کی زندگی میں ہوتا ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ جانتے ہیں کہ ان کی مقبولیت میں اضافہ نومبر کے وسط مدتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی ممکنہ بہتر پوزیشن کے مقابلے میں رپبلکن پارٹی کو حوصلہ دلانے کے لئے بےحد اہم ہے۔