رواں ہفتے میں جاری ہونے والے نیو یارک ٹائمز اور سی اینا کالج کی جانب سے کیے گئے ایک عوامی جائزے کے مطابق ایسے ریپبلیکنز جو متوقع طور پر اپنی پارٹی کے دو ہزار چوبیس کے صدارتی پرائمری انتخاب میں ووٹ ڈالیں گے ان میں سے نصف کا کہنا ہے کہ وہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ کسی اور کو پارٹی کا صدارتی امیدوار دیکھنے کو ترجیح دیں گے۔تاہم اب بھی ری پبلکن ووٹروں کی سب سے زیادہ تعداد جس امیدوار کی حامی ہیں، وہ ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔
ان ریپبلیکنز سے جن کےبارے میں امکان ہے کہ پرائمری میں ووٹ دیں گے سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ وہ ٹرمپ اور ریپبلیکن پارٹی کے پانچ دوسرے ممکنہ امیدواروں کے درمیان کس کو پارٹی کا صدارتی امیدوار بنانا چاہیں گے۔
جواب میں صرف 49 فیصد نے ٹرمپ کا انتخاب کیا حبکہ دو ہزار بیس کے صدارتی انتخاب میں ریپبلیکنز کے تمام ووٹوں میں سے 94 فیصد ووٹ سابق صدر ٹرمپ کو ملے تھے اور وہ اس کے باوجود موجودہ صدر بائیڈن کے مقابلے میں الیکشن ہار گئے تھے۔
وائس آف امریکہ کے لیے راب گارور کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس سروے کے مطابق ٹرمپ کے قریب ترین حریف فلوریڈا کے گورنر ران ڈی سینٹیس تھے جنہیں سروے میں شامل پچیس فیصد ممکنہ ووٹرز نے بطور امیدوار منتخب کیا۔
دوسرے ممکنہ امیدواروں میں ٹیکساس کے سینیٹر ٹیڈ کروز نے سات فیصد ووٹ حاصل کئے۔ سابق نائب صدر مائیک پینس نے چھہ فیصد ووٹ حاصل کئے۔ ساؤتھ کیرولائینا کی سابق گورنر اور اقوام متحدہ میں ٹرمپ کی سابق سفیر نکی ہیلی کے حصے میں چھ فیصد ووٹ آئے اور سابق وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ممکنہ پرائمری ووٹروں میں سے دو فیصد کے ووٹ حاصل کئے۔
کیا ٹرمپ ایک کمزور امیدوار ہوں گے؟
اس جائزے کے نتیجے میں جو سب سے بڑا سوال پیدا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ کیا دو ہزار چوبیس کے ریپبلیکن پرائمری انتخاب میں ٹرمپ ایک ایسے کمزور امیدوار ہوں گے جنہیں چیلنج کیا جاسکے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ جائزے سے احتیاط کے ساتھ نتیجہ اخذ کیا جانا چاہئیے۔
یونیورسٹی آف ورجینیا میں سینٹر فار پولیٹکس کے جریدے سباتو'س کرسٹل بال کے مینیجنگ ایڈیٹر کائیل کون ڈک نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جائزے میں واضح اکثریت نہ ہونے کے باوجود وہ اب بھی دوسروں سے بہت آگے ہیں۔
SEE ALSO: نصف صدی کا قصّہ : واٹر گیٹ اور پھر پچاس سال بعد کیپٹل ہل پر حملہاور انہوں نے کہا کہ جائزے کی اہمیت کا زیادہ تر انحصار اس بات پر ہے کہ ڈی سینٹیس جیسے لوگ اسکی تشریح کس طرح کرتے ہیں۔
یہ ڈیٹا اس کےایک روز بعد جاری کیا گیا جب اسی جائزے کے وہ نتائج شائع کئے گئے تھے جن کے مطابق ممکنہ ڈیموکریٹک پرائمری ووٹرز کی اکثریت اس بات کو ترجیح دیتی ہے کہ صدر بائیڈن دو ہزار چوبیس میں دوبارہ انتخاب نہ لڑیں۔
دونوں رہنماؤں کو اپنی اپنی پارٹیوں میں نسبتا زیادہ ذاتی مقبولیت حاصل ہے۔ اور 85 فیصد ڈیموکریٹس صدر بائیڈن کو پسند کرتے ہیں جبکہ 80 فیصد ریپبلیکنز یہ ہی جذبات ٹرمپ کے لئے رکھتے ہیں۔
پیر کے روز جاری ہونے والے جائزے میں جب ان ڈیموکریٹس سے جو صدر بائیڈن کے علاوہ 2024میں کوئی اور امیدوار چاہتے ہیں سوال کیا گیا کہ وہ بائیڈن کے علاوہ کوئی اور امیدوار کیوں چاہتے ہیں تو ان کی سب سے بڑی تعداد 33 فیصد نے انکی عمر کا حوالہ دیا۔ بائیڈن 79 برس کے ہیں۔ بطور صدر کام کرنے والے معمر ترین فرد اور دو ہزار چوبیس کے انتخاب کے وقت 82برس کے ہونگے۔
جائزے میں اس بارے میں سوال نہیں ہے کہ ٹرمپ کے اوپر کسی اور امیدوار کو ترجیح دینے کا سبب کیا ہے۔ ٹرمپ اسوقت 76 برس کے ہیں اور دو ہزار چوبیس کے انتخاب کے وقت 78 برس کے ہونگے۔
SEE ALSO: امریکی صدور سے متعلق سروے: کون کتنا مقبول؟پیر کے روز جاری ہونے والے جائزے میں شامل تمام ووٹروں سے سوال کیا گیا کہ اگر 2024میں دونوں بڑی پارٹیوں کے امیدوار بائیڈن اور ٹرمپ ہوئے تو وہ کسے ووٹ دیں گے تو 41 فیصد کے مقابلے پر 44 فیصد نے بائیڈن کو ترجیح دی۔
پیر کے روز وہائٹ ہاؤس نے اس جائزے کو مسترد کردیا۔ پریس سیکریٹری کیرین جین پیئر نے بریفنگ میں کہا کہ ایسے بہت سے جائزےآئیں گے جن میں اتار چڑھاؤ ہونگے۔ اور یہ وہ چیز نہیں ہے جس پر ہماری کوئی مکمل توجہ ہے۔
ٹرمپ بھی اس پر ناخوش تھے۔ منگل کی صبح انہوں نے نیو یارک ٹائمز پر تنقید کرتے ہوئے اور یہ الزام لگاتے ہوئے کہ وہ برسوں سے انہیں بار بار ہدف بنا رہا ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں غم و غصے کا اظہار کیا ۔
انہوں نے لکھا جعلی جائزے۔ جھوٹی خبریں اور من گھڑت مقولے۔ یہ سب صحافت کی توہین ہے۔ جو برسوں سے جاری ہے۔ نیویارک ٹائمز ان کے الفاظ میں صحیح معنوں میں عوام دشمن ہے۔