امریکہ کے واٹر گیٹ اسکینڈل اور 6 جنوری کے کیپٹک ہل پر حملے درمیان پچاس برس کا فاصلہ ہے، لیکن دونوں کی جڑیں کسی بھی قیمت پر اقتدارکو طوالت دینے سے جڑی ہوئی ہیں۔
دو صدورنے، بظاہر، ہوشیاری اور منصوبہ بندی سے امریکہ کی جمہوری اقدار کوٹھیس پہچانے کی کوشش کا فیصلہ کیا، آنجہانی صدر نکسن کو اپنی مہم جوئی کی ناکامی پر استعفیٰ دے کر وائٹ ہاوس چھوڑنا پڑا۔ اوردوسری مہم جوئی کے نتیجے کا ہنوز انتظار ہے۔
6 جنوری 2021 کی ہاؤس انکوائری ابھی جاری ہے لیکن دونوں معاملات کے اسرار برقرار ہیں، کیپیٹل پر حملے اور اس ہفتے کی واٹر گیٹ کی 50 ویں سالگرہ ۔۔ دونوں کا تعلق امریکہ کی جمہوری اقدار سے جڑا ہوا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ناراض حامیوں کو واشنگٹن میں ایک "تاریخ ساز" وقت پر جمع کیا اور ان سے کہا کہ "Fight like hell" یعنی کسی چیز کی پرواہ کیے بغیر لڑنے کی ترغیب دی۔
ٹرمپ الیکشن ہارنے کے باوجود اقتدار کے حصول کی کوشش کرتے رہے، اور یہی کہتے ہیں کہ انتخابی نتائج چوری کیے گئے، لیکن نکسن؟ ایک اہم سوال یہ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے یہ راستہ کیوں اختیار کیا؟
نکسن کے لیے دوبارہ انتخاب بظاہر مشکل نہیں تھا مگر ایک واقعے نے ساری کایا پلٹ دی ۔
یہ ساری کہانی 50 سال پہلے شروع ہوئی، جب ایک رات کو پہرہ دینے والے ملازم نے 17 جون 1972 کو واشنگٹن میں ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کا صدر دفتر واقع عمارت کے دروازے پر ٹیپ کا ایک ٹکڑا دیکھا۔
پولیس کو کال کرتے ہوئے، اس نے واٹر گیٹ اسکینڈل کو متحرک کیا جس نے رچرڈ نکسن کو صدارت سے محروم کر دیا، جو اب تک مستعفی ہونے والے واحد امریکی رہنما ہیں۔
تفتیش سے پتہ چلا کہ یہ ٹیپ پانچ افراد کی جانب سے وقفے کے دوران رکھی گئی تھی جنہیں وائٹ ہاؤس سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں نے نکسن کے مخالفین کے بارے میں سمجھوتہ کرنے والی معلومات تلاش کرنے کے لیے مائیکروفون رکھنے اور دستاویزات کی تصاویر لینے کا کام سونپا تھا۔
واٹر گیٹ اسکینڈل ریاستہائے متحدہ میں ایک بڑا سیاسی اسکینڈل تھا جس میں 1972 سے 1974 تک امریکی صدر رچرڈ نکسن کی انتظامیہ شامل تھی جس کی وجہ سے نکسن مستعفی ہوئے۔ یہ اسکینڈل نکسن انتظامیہ کی جانب سے 17 جون 1972 کو واشنگٹن، ڈی سی، واٹر گیٹ آفس بلڈنگ میں ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کے ہیڈ کوارٹر کے توڑ پھوڑ میں اپنی شمولیت کو چھپانے کی مسلسل کوششوں سے شروع ہوا۔
18 جون کو واشنگٹن پوسٹ نے اس موضوع پر اپنا پہلا مضمون شائع کیا۔ یہ پولیس کو کور کرنے والے رپورٹر الفریڈ ای لیوس کی طرف سے لکھا گیا تھا۔ لیکن آخر میں اس کے معاونین کی فہرست میں باب ووڈورڈ اور کارل برنسٹین کے نام بھی شامل تھے۔
دو نوجوان رپورٹرز نے اس معاملے کی تفصیلات کی چھان بین کرتے ہوئے ذمہ داری سنبھالی جس نے دو سال بعد نکسن کی صدارت کو ختم کر دیا، اور اپنے کام پر ان رپورٹرز کو قدر کی نگاہ سے دیکھے جانے والے پولٹرز ایوارڈ سے نوازا گیا۔
نکسن اور واٹر گیٹ - ایک امریکی المیہ" کے مصنف مائیکل ڈوبز نے کہا کہ سسٹم نے واٹر گیٹ کو انجام تک پہنچایا کیونکہ کانگریس، عدالتوں اور پریس نے مجرمانہ سرگرمیوں کا سراغ لگانے میں اپنا کام کیا، جس کی وجہ سے نکسن کو استعفیٰ دینا پڑا۔
انہوں نے کہا، "اس وقت نظام دباؤ میں تھا، لیکن آج اس سے کہیں زیادہ دباؤ ہے۔"
جب سینیٹ کی واٹر گیٹ کمیٹی نے مئی 1973 میں اپنی تاریخی سماعتیں شروع کیں تو مہنگائی سال کے آخر تک 9% کی طرف بڑھ رہی تھی۔
اب بھی تقریباً معیشت کا حال دگر گوں ہے ۔اور ابھی تک، تفتیش کار نئے حقائق دریافت کرنے کی جستجو میں ہیں، بہت سے واقعات اور شہادتیں ابھی ادھوری ہیں۔
ٹرمپ کے قریبی ساتھیوں کی جانب سے پہلے ریکارڈ شدہ گواہیوں کو جاری کرتے ہوئے، پینل نے کسی حد تک واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ ٹرمپ کا حلقہ کس حد تک جانتا تھا کہ چوری شدہ انتخابات کے بارے میں ان کا موقف ایک فریب تھا۔
ٹرمپ کے اٹارنی جنرل ولیم بار نے گواہی دی کہ اگر صدر واقعی ان پر یقین رکھتے ہیں تو ان کے دلائل "حقیقت سے الگ" تھے۔
سیاسی مبصرین کے سامنے یہ سوال بھی ہے کہ آج سے پچاس سال بعد چھ جنوری کے بارے میں امریکی کیا کہیں گے؟
مؤرخ مائیکل بیسلوس نے سماعتوں کے بارے میں ایک ٹویٹ پر اپنے تبصرے میں کہا کہ جواب کا انحصار اس بات پر ہے کہ آیا اس وقت تک امریکہ میں جمہوریت ہوگی یا آمریت۔ "اگر مؤخر الذکر بات درست نکلی، تو ملک کے مطلق العنان لیڈر چھ جنوری کو امریکہ کا ایک تاریخ ساز دن کہہ کر اس کا جشن منائیں گے، جیسے کی ٹرمپ نے بیان کیا ہے۔ انہوں نے ایک سوال اور بھی اٹھایا ہے، جس کا قطعی جواب شاید کبھی نہ مل سکے۔
سوال یہ تھا: اگر 6 جنوری کی بغاوت کامیاب ہو جاتی تو ہمارے ملک کا کیا ہوتا؟
(٘ضمون کا مواد اے ایف پی س اور اے پی سےلیا گیا)