امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ ایران پر ’بڑی‘ پابندیاں عائد کر رہے ہیں جن کا آغاز آئندہ ہفتے سے ہو گا, صدر نے ایران کے خلاف مزید پابندیاں عائد کرنے کا اعلان ایک ٹویٹ میں کیا لیکن انھوں نے پابندیوں کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
ہفتے کو کیمپ ڈیوڈ روانگی سے قبل ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ایک وقت پر جب تہران اپنے جوہری ہتھیاروں سے دستبردار ہونے پر رضامند تھا ’میں اس وقت ان کی حمایت کر رہا تھا۔‘
آبنائے ہرمز میں تیل بردار جہازوں پر حملے کا الزام ایران پر عائد کیے جانے کے بعد امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ ایران نے ٹینکروں پر حملے کے الزامات کو مسترد کیا ہے، گزشتہ ہفتے ایران نے ایک امریکی ڈرون بھی مار گرایا تھا۔
جمعے کو صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ انھوں نے جوابی کارروائی کے طور پر ایران کے متعدد مقامات پر حملوں کا فیصلہ کیا جسے عین وقت میں انھوں نے واپس لے لیا تاکہ شہری اموات سے بچا جا سکے۔
صدر ٹرمپ نے ٹویٹ کی کہ ’امریکہ نے ایران کے تین مختلف اہداف کو اپنے نشانے پر رکھ لیا تھا لیکن جب میں نے ان سے پوچھا کہ اس حملے میں کتنے افراد ہلاک ہوں گے تو جنرل نے جواب دیا کہ 150 افراد، حملے سے دس منٹ قبل میں نے انھیں روک دیا۔‘
عالمی رہنماؤں کی پرامن رہنے کی اپیل
ادھر عالمی رہنماؤں نے ان واقعات کے بعد دونوں ممالک کو پر امن رہنے کی اپیل کی ہے۔
جرمنی کی چانسلر انجیلا مارکل نے مسئلے کے سیاسی حل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم اسی پر کام کر رہے ہیں۔‘
برطانیہ کے مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں وزیر اینڈریو مورسن ایرانی حکام سے بات چیت کے لیے تہران پہنچ رہے ہیں۔
برطانیہ کے محکمہ خارجہ نے کہا کہ مورسن خطے میں ’فوری طور کشیدگی کم کرنے پر زور دیں گے اور وہ امریکہ کے جوہری معاہدے سے انخلا کے بعد ایران کی جانب سے پیدا ہونے والے خدشات پر بھی بات کریں گی۔
امریکہ کے اہداف کیا تھے؟
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق امریکی حکام نے ایران کے ریڈار اور میزائل نظام کو نشانہ بنانے کے لیے اہداف کا تعین کر لیا تھا، ان اہداف کو میزائلوں کے ذریعے تباہ کرنے کی منصوبہ بندی تھی۔
اس ضمن میں پہلے سے ہی مشرق وسطی میں تعینات امریکی جنگی بیڑے اور فضائیہ کو ٹاسک دے دیا گیا تھا۔ اس ممکنہ حملے میں ان میزائل تنصیبات کو بھی تباہ کرنا تھا جنہوں نے امریکی ڈرون طیارے کو گرایا تھا۔
اطلاعات کے مطابق قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن، وزیر خارجہ مائیک پومپیو، ڈائریکٹر سی آئی اے جینا ہیسپل سمیت صدر کے بیشتر مشیر جوابی کارروائی کے حق میں تھے، تاہم حتمی فیصلہ صدر ٹرمپ نے کیا۔
'کسی بھی جارحیت کا جواب دیں گے'
ایران نے امریکی جوابی کارروائی کے امکانات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دے گا۔
ایرانی حکام پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ انھوں نے فضائی حدود کی خلاف ورزی پر امریکی ڈرون طیارہ گرایا تھا، ایران نے کہا تھا کہ اس کی فضائی حدود ایک سرخ لکیر کی مانند ہے جو بھی اسے عبور کرے گا اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔
ایران امریکہ کشیدگی کب کیا ہوا؟
ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات کشیدگی کی نئی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے جواب میں ایران نے یورینیم کی افزودگی بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب گزشتہ سال صدر ڈونلڈ ٹرمپ یک طرفہ طور پر ایران کے ساتھ 2015ء میں طے پانے والے جوہری معاہدے سے الگ ہو گئے تھے۔ رواں ماہ کے آغاز پر امریکہ نے ایران سے تیل درآمد کرنے والے آٹھ ممالک کا استثنٰی بھی ختم کر دیا تھا۔
امریکہ کا یہ موقف ہے کہ ایران جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے اور اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھا رہا ہے جب کہ وہ خطے میں امریکہ کے اتحادی ممالک کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتا ہے۔
ایران ان امریکی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اپنے جوہری پروگرام کو پرامن مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر زور دیتا آیا ہے۔
خطے میں کشیدگی کے باعث امریکہ نے جنگی بیڑے اور فوجی بھی مشرق وسطیٰ بھیج دیے ہیں۔