صدر ٹرمپ نے منگل کے روز پنٹاگان میں ایک سپس کمانڈ قائم کر دی ہے، جس کا مقصد خلا سے بڑے پیمانے کی فوجی کارروائیاں منظم کرنے کی جانب پیش رفت ہے۔
اگلے پانچ برسوں کے دوران اس پر 800 ملین ڈالر سے زیادہ کے اخراجات کا اندازہ ہے۔
ٹرمپ نے منگل کے روز ایک صفحے کی یاداشت پر دستخط کیے جس سے محکمہ دفاع کو نئی خلائی کمان قائم کرنے کا اختیار مل گیا۔
اس کمان کا ہدف خلا سے فوجی کارروائیوں کو منظم کرنا، ان کی نگرانی کرنا ا، اس کے تکنیکی پہلوؤں میں پیش رفت کرنا اور خلا میں امریکی اثاثوں کا زیادہ بہتر طور پر تحفظ کرنا ہے۔
خلائی کمان ایک ایسے وقت میں قائم کی جا رہی ہے جب یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ روس اور چین امریکی سیٹلائٹس کے کام میں خلل ڈالنے، انہیں ناکارہ بنانے اور حتّی کہ تباہ کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
ایک امریکی عہدے دار کے مطابق سپس کمانڈ کے لیے فوج سے تقریباً 600 افراد لیے جائیں گے اور آنے والے برسوں میں خلائی کمان میں مزید 1000 اہل کاروں کا اضافہ کیا جائے گا۔
فوج کے ڈپٹی ڈیفنس سیکرٹری پیٹرک شین ہین کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل جو بوکینو نے کہا ہے کہ سپیس کمانڈ کا قیام خلا سے متعلق اپنی صلاحیتوں کو آگے بڑھانے، اپنے اہم قومی مفادات کا تحفظ کرنے اور اپنے دشمنوں کی حوصلہ شکنی کے لیے ایک اہم قدم ہے۔ یہ فوجی خلائی کمان، خلا سے ہماری کارروائیوں کی قیادت کرے گی اور خلا سے جنگ کی حکمت عملی اور طریقے تیار کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پینٹاگان صدر ٹرمپ کے خلائی فورس کے وژن کے مطابق ترقی دینے کے لیے ایک لائحہ عمل تیار کرے گا۔
انٹیلی جینس ایجنسیوں نے اس سال کے شروع میں یہ رپورٹ دی تھی کہ روس اور چین مستقبل کی جنگ کے لیے ایسے سیٹلائٹ شکن ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جو تباہ کن بھی ہوں گے اور غیر تباہ کن بھی۔ اور اس نوعیت کے سائبر حملوں کے خدشات بھی بڑھ رہے ہیں جن کا ہدف سیٹلائٹ ٹیکنالوجی ہو سکتا ہے ۔ جس سے یہ خطرہ بڑھ سکتا ہے کہ جنگ کے دوران فوجی الیکٹرانک کمیونیکیشن اور نیوی گیشن کی سہولت سے محروم ہو جائیں گے۔
امریکہ نے اس سے قبل بھی ایک سپیس کمانڈ قائم کی تھی جو 1985 سے 2002 کے عرصے میں فعال رہی۔ لیکن پھر 2001 کے دہشت گرد حملوں کے بعد اسے توڑ دیا گیا تا کہ اس کی جگہ امریکہ کی سرزمین کے تحفظ کے لیے شمالی کمانڈ قائم کی جاسکے۔