صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پیر کے روز امریکہ کو بحرالکاہل کی 12 ملکی تجارتی تنظیم سے علیحدہ کرنے کا اعلان کیا، ایسے میں جب عہدہ سنبھالنے کے بعد، اُنھوں نے پہلے ہفتے کے کارِ سرکار کا باضابطہ آغاز کیا۔
وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ نے کہا ہے کہ ’’جو اقدام ہم نے ابھی کیا ہے، یہ امریکی کارکن کے لیے اہمیت کا حامل ہے‘‘۔
نئے صدر نے، جیسا کہ ری پبلیکن پارٹی کے ماضی کے سارے منتظمینِ اعلیٰ کرتے آئے ہیں، ایک حکم نامے پر بھی دستخط کیے جس کے تحت بین الاقوامی گروپوں کو سرکاری رقوم فراہم کرنے پر دوبارہ بندش لاگو کی گئی ہے جو اسقاطِ حمل پر عمل درآمد کرتے ہیں، یا اِس عمل کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔
مزیدبرآں، انتخابی مہم کا اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے، ٹرمپ نے متعدد سرکاری اداروں میں ملازمت پر رکھے جانے کے عمل کو منجمد کرنے کا بھی اعلان کیا، جس کا مقصد حکومت کے اخراجات میں کمی لانا اور کسی اضافے کو روکنا ہے۔
تجارتی سمجھوتا، جسے ’ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ (ٹی پی پی)‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، سابق صدر براک اوباما کے دور میں طے ہوا اور 2009ء سے جاری تھا۔ تاہم، امریکی کانگریس کی جانب سے اِس کی توثیق نہیں ہو پائی، ایسے میں جب کئی قانون ساز اس کے مخالف تھے یا سمجھوتے پر اُنھیں شکوک و شبہات لاحق تھے۔ سمجھوتے کے تحت جاپان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ملائیشیا، چلی، کینیڈا، میکسیکو اور چار دیگر ملکوں کے ساتھ تجارت ہونی تھی۔
’ٹی پی پی‘ تاریخ کا سب سے بڑا علاقائی تجارتی معاہدہ تھا، جو دنیا کی معیشت کا تقریباً 40 فی صد خطہ ہے، جو دنیا کی تجارت کا تقریباً تیسرا حصہ بنتا ہے۔ چین نے اِن مذاکرات میں حصہ نہیں لیا تھا۔ لیکن، وہ پیدا ہونے والی خلا میں کودنے پر تیار لگتا ہے، اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ معاہدے طے کرنے پر مصر ہے، جو اِس 12 ملکی سمجھوتے کا حصہ بنتے۔
معاہدے کی وکالت کرتے ہوئے، اوباما نے گذشتہ سال کہا تھا کہ ’’ہم نہیں چاہتے کہ چین جیسے ممالک عالمی معیشت کے ضابطے تحریر کریں۔ یہ ضابطے ہمیں لکھنے چاہئیں‘‘۔
تاہم، ٹرمپ نے، جنھوں نے گذشتہ جمعے کو عہدہٴ صدارت سنبھالا، صدارتی انتخابی مہم کے دوران، دنیا کی معشیت کی عالمگیریت کی مخالفت کی تھی۔ وہ کہتے رہے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے طے کردہ کثیر ملکی تجارتی سمجھوتے امریکی کارکنان کے روزگار کے مواقع چھیننے کا موجب بنتے ہیں، ایسے میں جب مالکان سستی اجرت پر کام تلاش کرتے ہیں، اور یوں، صنعتیں بیرونِ ملک چلی جاتی ہیں۔
ٹرمپ امریکی اور انفرادی ملکوں کے درمیان باہمی معاہدوں کے حق میں ہیں، جو وسیع تر معاہدے پر رضامند ہوتے ہیں۔
ڈیڑھ برس قبل، جب ابھی اُنھوں نے صدارتی انتخاب کے لیے اپنے نام کا اعلان نہیں کیا تھا، ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’’ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ امریکی کاروبار پر حملے کے مترادف ہے۔ اس سے جاپان کی جانب سے سکے کی قدر کے حقائق میں ہیر پھیر کا معاملہ ختم نہیں ہوتا۔ یہ ایک خراب سمجھوتا ہے‘‘۔