کئی مبصرین کی نظر میں، فضل اللہ، حکیم اللہ محسود سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور پاکستان میں پُر تشدد واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آسکتا ہے
حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد، پہلی دفعہ تحریکِ طالبان پاکستان کے سربراہ، مولوی فضل اللہ اور نائب سربراہ شیخ خالد حقانی کا انتخاب فاٹا سے باہر صوبہٴپختون خواہ سے کیا گیا ہے۔
مولوی فضل اللہ کو سوات جب کہ خالد حقانی کو صوابی سے منتخب کرنے کے پس پردہ ممکنہ وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے، ممتاز پاکستانی دفاعی تجزیہ کار، ریٹائرڈ برگیڈیئر سعد محمد نے ’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس کو بتایا کہ ڈرون حملوں کی بدولت فاٹا میں محسود قیادت، بقول اُن کے، تقریباً ختم ہوچکی ہے اور فاٹا میں اب کوئی ایسا اثر و رسوخ والا فرد باقی نہیں رہا جو طالبان تحریک کی قیادت کرسکے، جب کہ اس کی دوسری وجہ ایسے پُرتشدد اور سخت گیر اور مذاکرات پر یقین نہ رکھنے والےفرد کو لیڈر بنا کر حکومتِ پاکستان کو یہ پیغام دینا بھی مقصود ہوسکتا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
اِس سوال کے جواب میں کہ کیا مولوی فضل اللہ تحریکِ طالبان پاکستان کی قیادت میں فاٹا میں سرگرم 30سے زیادہ دہشت گرد گروہوں کو ایک چھتری کے نیچے رکھتے ہوئے اپنی کارروائیاں جاری رکھ سکے گا، خاص کر اس پس منظر میں کہ اس کا تعلق فاٹا سے نہیں ہے، برگیڈیئر سعد کا جواب تھا کہ اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو محسود انتہائی سرکش قبیلہ ہے جو کسی اور کی قیادت نہیں مانتا۔ اِس لیے، اُن کے الفاظ میں، فضل اللہ کی قیادت میں تحریک طالبان پاکستان کمزور ہوجائے گی، اور اس میں دراڑیں پڑنے کا امکان ہے۔
برگیڈیئر سعد نے مزید بتایا کہ فضل اللہ نے سوات میں آپریشن شروع ہونے کے فوراً بعد، میدان سے بھاگ کر افغانستان میں پناہ لے لی تھی، جو، بقول اُن کے، اُس کی کمزوری کا اظہار ہے۔
ریٹائرڈ بریگیڈیئر سعد کے الفاظ میں پاکستان کی ریاست کے لیے طالبان کے نئے لیڈر کے طور پر فضل اللہ کا انتخاب فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔
تاہم، کئی مبصرین کی نظر میں، فضل اللہ، حکیم اللہ محسود سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور پاکستان میں پُر تشدد واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آسکتا ہے۔
برگیڈیئر سعد محمد اور دیگر مقامی دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق، مولوی فضل اللہ نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز 1994ء میں تحریک نفاذِ شریعتِ محمدی میں شمولیت سے کی اور بعد میں تحریک کے سربراہ صوفی محمد کے داماد بنے۔
سنہ 2001میں افغانستان میں جنگ شروع ہونے کے بعد، مولوی فضل اللہ نیٹو کے خلاف لڑنے کے لیے کئی ہزار لوگوں کو جہاد کے نام پر افغانستان لے کر گئے۔
سنہ 2005میں ایک غیر قانونی ایف ایم ریڈیو شروع کیا جس میں لڑکیوں کی تعلیم، پولیو کے خلاف ٹیکوں اور امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے خلاف خطبے دیتے رہے۔اور اِسی بنا پر اسے ’ملا ریڈیو‘ کے نام سے بھی یاد کیا جانے لگا۔
بعد میں، بات بڑھتے بڑھتے، مبینہ طور پر اغواٴ برائے تاوان کے واقعات، اسکولوں پر حملوں اور عوامی مقامات پر خود کش بم دھماکوں تک پہنچی، جس کے بعد حکومت اور فوج کے مشترکہ فیصلے کے بعد، سوات میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا گیا۔
سنہ 2009 میں کامیاب فوجی کارروائی کے بعد، مولوی فضل اللہ سوات سے غائب ہوگئے۔
بتایا جاتا ہے کہ مولوی فضل اللہ افغانستان کے کنڑ اور نورستان کے علاقوں میں پناہ لیے ہوئے ہے۔
شائع شدہ خبروں کے مطابق، کچھ عرصہ پہلے مولانا فضل اللہ اور اس کے جنگجو ملالہ یوسفزئی اور جنرل ثناٴ اللہ نیازی پر حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکے ہیں۔
مولوی فضل اللہ اپنی قیادت منوا سکے گا یا نہیں؟
اس کی سربراہی میں تحریک طالبان کا مستقبل کیا ہے؟
تحریکِ طالبان پاکستان فضل اللہ کی قیادت میں حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کیے لیے تیار ہوگی یا نیں؟
کیا دہشت گرد کارروائیوں میں تیزی آئے گی؟
کیا ڈرون حملے اب فاٹا سے باہر سوات اور صوابی تک پھیل جائیں گے؟
یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب وقت ہی سے سکتا ہے۔
تفصیل سننے کے لیے آڈیو رپورٹ پر کلک کیجیئے:
مولوی فضل اللہ کو سوات جب کہ خالد حقانی کو صوابی سے منتخب کرنے کے پس پردہ ممکنہ وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے، ممتاز پاکستانی دفاعی تجزیہ کار، ریٹائرڈ برگیڈیئر سعد محمد نے ’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس کو بتایا کہ ڈرون حملوں کی بدولت فاٹا میں محسود قیادت، بقول اُن کے، تقریباً ختم ہوچکی ہے اور فاٹا میں اب کوئی ایسا اثر و رسوخ والا فرد باقی نہیں رہا جو طالبان تحریک کی قیادت کرسکے، جب کہ اس کی دوسری وجہ ایسے پُرتشدد اور سخت گیر اور مذاکرات پر یقین نہ رکھنے والےفرد کو لیڈر بنا کر حکومتِ پاکستان کو یہ پیغام دینا بھی مقصود ہوسکتا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
اِس سوال کے جواب میں کہ کیا مولوی فضل اللہ تحریکِ طالبان پاکستان کی قیادت میں فاٹا میں سرگرم 30سے زیادہ دہشت گرد گروہوں کو ایک چھتری کے نیچے رکھتے ہوئے اپنی کارروائیاں جاری رکھ سکے گا، خاص کر اس پس منظر میں کہ اس کا تعلق فاٹا سے نہیں ہے، برگیڈیئر سعد کا جواب تھا کہ اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو محسود انتہائی سرکش قبیلہ ہے جو کسی اور کی قیادت نہیں مانتا۔ اِس لیے، اُن کے الفاظ میں، فضل اللہ کی قیادت میں تحریک طالبان پاکستان کمزور ہوجائے گی، اور اس میں دراڑیں پڑنے کا امکان ہے۔
برگیڈیئر سعد نے مزید بتایا کہ فضل اللہ نے سوات میں آپریشن شروع ہونے کے فوراً بعد، میدان سے بھاگ کر افغانستان میں پناہ لے لی تھی، جو، بقول اُن کے، اُس کی کمزوری کا اظہار ہے۔
ریٹائرڈ بریگیڈیئر سعد کے الفاظ میں پاکستان کی ریاست کے لیے طالبان کے نئے لیڈر کے طور پر فضل اللہ کا انتخاب فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔
تاہم، کئی مبصرین کی نظر میں، فضل اللہ، حکیم اللہ محسود سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور پاکستان میں پُر تشدد واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آسکتا ہے۔
برگیڈیئر سعد محمد اور دیگر مقامی دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق، مولوی فضل اللہ نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز 1994ء میں تحریک نفاذِ شریعتِ محمدی میں شمولیت سے کی اور بعد میں تحریک کے سربراہ صوفی محمد کے داماد بنے۔
سنہ 2001میں افغانستان میں جنگ شروع ہونے کے بعد، مولوی فضل اللہ نیٹو کے خلاف لڑنے کے لیے کئی ہزار لوگوں کو جہاد کے نام پر افغانستان لے کر گئے۔
سنہ 2005میں ایک غیر قانونی ایف ایم ریڈیو شروع کیا جس میں لڑکیوں کی تعلیم، پولیو کے خلاف ٹیکوں اور امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے خلاف خطبے دیتے رہے۔اور اِسی بنا پر اسے ’ملا ریڈیو‘ کے نام سے بھی یاد کیا جانے لگا۔
بعد میں، بات بڑھتے بڑھتے، مبینہ طور پر اغواٴ برائے تاوان کے واقعات، اسکولوں پر حملوں اور عوامی مقامات پر خود کش بم دھماکوں تک پہنچی، جس کے بعد حکومت اور فوج کے مشترکہ فیصلے کے بعد، سوات میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا گیا۔
سنہ 2009 میں کامیاب فوجی کارروائی کے بعد، مولوی فضل اللہ سوات سے غائب ہوگئے۔
بتایا جاتا ہے کہ مولوی فضل اللہ افغانستان کے کنڑ اور نورستان کے علاقوں میں پناہ لیے ہوئے ہے۔
شائع شدہ خبروں کے مطابق، کچھ عرصہ پہلے مولانا فضل اللہ اور اس کے جنگجو ملالہ یوسفزئی اور جنرل ثناٴ اللہ نیازی پر حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکے ہیں۔
مولوی فضل اللہ اپنی قیادت منوا سکے گا یا نہیں؟
اس کی سربراہی میں تحریک طالبان کا مستقبل کیا ہے؟
تحریکِ طالبان پاکستان فضل اللہ کی قیادت میں حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کیے لیے تیار ہوگی یا نیں؟
کیا دہشت گرد کارروائیوں میں تیزی آئے گی؟
کیا ڈرون حملے اب فاٹا سے باہر سوات اور صوابی تک پھیل جائیں گے؟
یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب وقت ہی سے سکتا ہے۔
تفصیل سننے کے لیے آڈیو رپورٹ پر کلک کیجیئے:
Your browser doesn’t support HTML5