تیونس کے حکام کا کہنا ہے کہ عوامی بغاوت کے باعث اقتدار چھوڑ کر بیرونِ ملک فرار ہونے والے سابق صدر زین العابدین بن علی اور ان کے اہلِ خانہ کی گرفتاری کےلیے عالمی وارنٹ جاری کردیے گئے ہیں۔
تیونس کی وزارتِ انصاف کی جانب سے بدھ کے روز جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق سابق صدر اور ان کے اہلِ خانہ کے خلاف وارنٹ گرفتاری قومی خزانے کو نقصان پہنچانے اور سرکاری رقوم غیر قانونی طور پر بیرونِ ملک منتقل کرنے کے الزامات کے تحت جاری کیے گئے ہیں۔
سابق صدر کے خلاف وارنٹ کا اجراء ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب تیونس کے دارالحکومت میں عبوری انتظامیہ کے خلاف عوامی مظاہرے جاری ہیں۔
بدھ کے روز ہونے والے مظاہروں کے دوران کئی مقامات پر پولیس اور مظاہرین کی جھڑپیں بھی ہوئیں۔ مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا جبکہ پولیس کی جانب سے مظاہروں کے شرکاء پر آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا گیا۔ مظاہرین عبوری کابینہ سے سابق صدر کے ساتھیوں کی برطرفی کا مطالبہ کررہے ہیں۔
تیونس کی عبوری انتظامیہ کے ترجمان طیب بکوچے نے کہا ہے کہ سابق صدر کے ملک سے فرار کے بعد ملکی کابینہ سے گزشتہ ہفتے مستعفی ہوجانے والے پانچ وزراء کی جگہ نئی تقرریوں کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ ان کے مطابق ان وزراء کی جگہ پر مزدور تنظیموں کے تین نمائندوں اور حزبِ مخالف کی ایک جماعت کے رہنما کا بطورِ وزیر تقرر کیا جارہا ہے۔
تاہم فرانسیسی خبر رساں ایجنسی نے تیونسی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ کابینہ میں نئی نامزدگیوں کےلیے غیر جانبدار افراد کے ناموں پر غور کیا جارہا ہے۔
تیونس کی عبوری کابینہ میں اب بھی عوامی مزاحمت کے باعث ملک سے فرار ہونے والے سابق صدر زین العابدین بن علی کی جماعت ’آر سی ڈی پارٹی‘ کے ارکان کی اکثریت ہے جس پر عوام سراپا احتجاج ہیں۔
گزشتہ روز عبوری انتظامیہ کی حمایت میں تیونس کے دارالحکومت میں ایک ریلی اہتمام بھی کیا گیا۔ بعد ازاں ریلی کے شرکاء کا حکومت کی مخالفت اور عبوری کابینہ سے صدر بن علی کی باقیات کو بے دخل کرنے کا مطالبہ کرنے والوں کے ایک بڑے مظاہرے سے تصادم ہوا تاہم اس میں کسی قسم کے جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں۔
تیونس میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، مہنگائی اور کرپٹ نظامِ حکومت کے خلاف ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد کئی برسوں سے برسرِ اقتدار صدر بن علی ملک سے فرار ہوگئے تھے۔ گزشتہ ماہ شروع ہونے والے ان مظاہروں میں سرکاری حکام کے مطابق اب تک 78 افرا د ہلاک ہوچکے ہیں۔ تاہم اقوامِ متحدہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد 100 سے زائد ہوسکتی ہے۔