تیونیسیا کے صدر نے ہفتے کو ملک میں ہنگامی حالات کے نفاذ کا اعلان کیا، جس سے آٹھ ہی روز قبل ایک مسلح شخص نے ساحل پر واقع ایک معروف صحت افزا سیاحتی مرکز پر حملہ کیا، جس واقعے میں 38 غیر ملکی سیاح ہلاک ہوئے۔
فوری طور پر یہ واضح نہیں آیا صدر محمد الباجي قائد السبسي نے ہنگامی حالات کا اعلان کیوں کیا یا اس میں کیا اقدامات متوقع ہیں۔ سرکاری خبر رساں ادارے نے اطلاع دی ہے کہ صدر آ ج ہی کے دِن قوم سے خطاب کریں گے۔
اس سے قبل لگائے گئے ہنگامی حالات کے دوران، پولیس اور فوج کو خصوصی اختیارات تفویض کیے گئے تھے، جسے مارچ 2014ء میں اٹھا لیا گیا تھا، جو صورت حال ایک طویل مدت تک جاری رہی، جب سنہ 2011ء کے انقلاب میں صدر زین العابدین بن علی کو اقتدار سے ہٹایا گیا۔
انقلاب کے بعد تیونس میں جہادی شدت پسندی میں تیزی آئی ہے، جس میں درجنوں پولیس اہل کار اور فوجی ہلاک ہوئے۔
تیونس کی سوزے کی تفریح گاہ پر ہونے والی اس دہشت گردی میں، 38 میں سے ہلاک ہونے والے 30 سیاحوں کا تعلق برطانیہ سے تھا۔
برطانیہ کی ملکہ اور وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے جمعے کو ہلاک شدگان کی یاد میں ایک لمحے کی خاموشی اختیار کی۔
دیگر ہلاک شدگان کا تعلق بیلجئیم، جرمنی، آئرلینڈ، پرتگال اور روس سے تھا۔