تیونس، جہاں سےشمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں ’عرب اسپرنگ‘ کی داغ بیل پڑی، ایک بار پھر تاریخ ساز کردار ادا کررہا
ہے، اوراِس مرتبہ یہاں پہلے جمہوری انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔
تیونس کے لوگ اتوار کے روزکثیر تعداد میں ووٹ ڈالنے باہر نکلے، اور اِس امر پر خوشی اور فخر محسوس کررہے ہیں کہ وہ متعدد سیاسی جماعتوں میں سے اپنی مرضی کی کسی پارٹی کومنتخب کر سکتے ہیں۔ 1956ء میں آزاد ہونے والے اِس ملک میں پہلی بار انتخابات ہو رہے ہیں۔
انتخابی کمیشن کا کہنا ہے کہ تیونس کے 44لاکھ ووٹروں میں اب تک تقریباً 70فی صد نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا ہے، جب کہ ابھی ووٹنگ ختم ہونے میں کئی گھنٹے باقی ہیں۔
انتخابات میں 100سے زائد سیاسی جماعتوں کے امیدوار میدان میں ہیں۔ پچھلے انتخابات میں صرف حکمران پارٹی کے امیدواروں کو انتخاب لڑنے کی اجازت ہوا کرتی تھی۔
یہ’ عرب اسپرنگ‘ کے اولین انتخابات ہیں، جب کہ نو ماہ سےکچھ ہی زیادہ عرصہ قبل تیونس کے باشندوں نے طویل مدت تک اقتدار میں رہنے والے آمر، زین العابدین بن علی کو اقتدار سے الگ کیا۔ اگر استصواب کے نتیجے میں ایک موٴثر حکومت وجود میں آتی ہے تو خطے میں یہ ایک رول ماڈل کا کردار ادا کرے گی۔
ووٹر 217نشتوں والی ایک قانون ساز اسمبلی کا انتخاب کر رہے ہیں ، جِس کی بدولت ایک عبوری حکومت نامزد ہوگی جو شمالی افریقہ کے اِس ملک میں ایک نیا آئین تشکیل دے گی۔