ترک حکام نے استنبول کے ایک نائٹ کلب میں سال نو کے موقع پر حملے کے سلسلے میں کئی درجن افراد کو پکڑا ہے جن کا تعلق وسطی ایشیا سے ہے۔
اس حملے میں 39 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ترک حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے عبدالقار ماشاریپوف نامی ایک ازبک شخص کو حملے کے سرغنہ کے طور پر شناخت کیا ہے۔ وہ ابھی تک مفرر ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ اسے پکڑنے کے لیے ایک بڑی مہم جاری ہے۔
اسلامک اسٹیٹ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
ترک حکومت کا خیال ہے کہ وسطی ایشیا سے تعلق رکھنے والی مختلف قومیتوں کے لوگوں کا ایک بڑا گروپ اس حملے میں ملوث تھا۔
ترک میڈیا کی رپورٹس کے مطابق 40 سے زیادہ مشتبہ افراد میں سے ، جنہیں پکڑا گیا ہے، نصف درجن کا تعلق وسطی ایشیائی ملکوں سے ہے۔
ترک اخبار حریت کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماشاریپوف 15 دسمبر کو ، وسطی ایشیائی ملک قونیہ کے صوبے اناطولیہ سے حملوں کی نیت سے آیا تھا۔
اخبار کے مطابق تازہ ترین معلومات میں بتایا گیا ہے کہ قونیہ میں اسلامک اسٹیٹ کے ایک گروپ نے ، جو ازبک افراد پر مشتمل تھا، ماشاریپوف کو آمدروفت کی سہولت مہیا کی تھی۔
ترکی ایک عرصے سے اسلامک اسٹیٹ میں شمولیت کی غرض سے شام اور عراق جانے والے وسطی ایشیائی ملکوں کے سینکڑوں جہادیوں کے لیے ایک گذر گاہ رہا ہے۔
ایک انٹیلی جینس گروپ صوفان کے مطابق عراق اور شام میں لڑنے والے تقریباً 4700 جنگجو روس کی سابقہ ریاستوں قازقستان، ترکمانستان ، تاجکستان، ازبکستان اور کرغرستان سے آئے ہیں۔
لیکن اسلامک اسٹیٹ کو دونوں ملکوں میں جنگ کے میدانوں میں مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
جانز پاکنز یونیورسٹی میں وسطی ایشیا امور کے ایک تجزیہ کار جان ڈیلے کا کہنا ہے کہ ترکی کی جانب سے شام اور عراق کی اپنی سرحدوں پر سیکیورٹی انتظامات سخت کر دیے جانے کے باوجود وسطی ایشیائی ملکوں کے جہادی اپنی آمد و رفت با آسانی جاری رکھنے کے قابل ہیں اور وہ اپنی نظریں غیرملکی اہداف پر جمائے ہوئے ہیں۔
جان ڈیلے کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ ترکی ان کی ہیٹ لسٹ کے اولین اگلے درجوں پر ہے۔