ترکی میں انتخابات،نوجوان ووٹرز سیاسی جماعتوں کی توجہ کا مرکز

ترکی میں انتخابات،نوجوان ووٹرز سیاسی جماعتوں کی توجہ کا مرکز

ترکی میں اتوار کے روز ووٹ ڈالے جائیں گے۔ وزیرِ اعظم رجب طیب اردگان کی اسلام پسند جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ایک عشرے کی بے مثال اقتصادی ترقی کے ریکارڈ پر انتخاب لڑ رہی ہے۔ اس کے مقابلے پر سیکولر ریپبلیکن پیپلز پارٹی ہے جس کی کوشش ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک نئے روپ میں پیش کرے اور اس بات پر زور دے کہ اقتصادی ترقی کے ساتھ ملک میں آمریت کے رجحانات پیدا ہو رہے ہیں۔ دونوں پارٹیوں کے لیئے نوجوان ووٹروں کی حمایت اہم ہو گی کیوں کہ ووٹروں کی ایک تہائی تعداد کی عمر 25 سال سے کم ہے۔

2002 میں بر سرِ اقتدار آنے کے بعد سے اب تک، اس پارٹی نے مسلسل اقتصادی ترقی کا شاندار ریکارڈ قائم رکھا ہے۔ ترکی جسے یورپ کا مردِ بیمار کہا جاتا تھا، اب ایک اقتصادی شیر میں تبدیل ہو گیا ہے ۔ یونیورسٹی کی طالبہ Ayse Demir انتخابی مہم کا لٹریچر تقسیم کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ پارٹی ملک میں جو تبدیلیاں لائی ہے ان کی وجہ سے وہ اسکی گرویدہ ہو گئی ہیں۔’’10 سال پہلے ، ہر کوئی یہی کہتا تھا کہ ہمیں یورپی یونین میں شامل ہو جانا چاہیئے۔ لیکن، اب ایسی بات نہیں ہے۔ ہمیں یورپی یونین کے بغیر طاقت مل گئی ہے ۔ اب مشرق وسطیٰ کے تمام ملک ترکی جیسے بننا چاہتے ہیں۔‘‘

وزیرِ اعظم رجب طیب اردگان نے بہت بڑے بڑے تعمیری منصوبوں کا اعلان کیا ہے جن میں سڑکیں ہسپتال، یہاں تک کہ نئے شہر تک شامل ہیں۔ ان کا پلیٹ فارم پچھلے عام انتخاب سے بہت مختلف ہے جب انھوں نے صدر کے لیے اپنے امید وار کی نامزدگی پر ترکی کی اس وقت کی طاقتور فوج کی مخالفت پر اپنی جمہوری بنیادوں پر زور دیا تھا۔اب ان کا سامنا حزب اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی، ریپبلیکن پیپلز پارٹی یعنی سی ایچ پی سے ہے۔

سی ایچ پی کی انتخابی مہم میں ٹیلیویژن کے ایک اشتہار میں نوجوانوں کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس میں عورتوں اور نسلی اقلیتوں کے لیئے پارٹی کی پالیسیوں پر زور دیا گیا ہے ۔ اس میں حکومت میں بڑھتے ہوئے آمرانہ رجحانات کے بارے میں خبر دار کیا گیا ہے، اور حکومت کی طرف سے انٹرنیٹ اور فون پر بات چیت کی نگرانی کا حوالہ دیا گیا ہے ۔ Kemal Kilicdaroglu کی نئی قیادت کے تحت، یہ پارٹی خود کو ایک جدید سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے طور پر پیش کر رہی ہے۔

استنبول میں سی ایچ پی کے ہیڈ کوارٹرز میں پارٹی کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ تبدیلیوں کے اچھے اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ نوجوان والنٹیئرز کی تعداد میں دس گنا اضافہ ہوا ہے۔ ان میں ایک رضاکار ،قانون کے طالب علم Melis Ayanit ہیں ۔ وہ کہتے ہیں’’تبدیلی ضروری تھی۔ یہ تبدیلی مسٹر Kilicdaroglu کے ساتھ آئی جنھوں نے ایک نیا سیاسی نظریہ پیش کیا۔ لوگوں میں بھی تبدیلی آئی۔ اب اس پارٹی میں زیادہ نوجوان شامل ہیں۔نوجوانوں نے ملک کی سب سے بڑی پارٹی کی طاقت کو دیکھا اور محسوس کیا کہ ہمیں کیا خطرات درپیش ہیں۔ مثلاً میں اپنے دوستوں کے ساتھ سیاسی موضوعات پر بات چیت نہیں کرتا۔ مجھے خوف محسوس ہوتا ہے کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی میری باتیں سن رہا ہو۔‘‘

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق، گذشتہ الیکشن کے مقابلے میں، سی ایچ پی کی حمایت میں 50 فیصد اضافے کی توقع ہے۔ لیکن ترکی کی معیشت میں ترقی کی شرح تقریباً 9 فیصد ہے۔ اس لیے ان جائزوں میں یہ پیشگوئی بھی کی جا رہی ہے کہ وزیر اعظم اچھی خاصی اکثریت سے انتخاب جیت لیں گے۔ اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ انہیں کتنی بڑی اکثریت حاصل ہو گی۔

وزیرِ اعظم نے پارلیمینٹ میں دو تہائی اکثریت کا ہدف مقرر کیا ہے ، تا کہ وہ آئینی اصلاحات کر سکیں۔ استنبول میں قائم تھنک ٹینک Tesev کی Sabiha Senyucel Gundoga کہتی ہیں کہ اگر مسٹر اردگان نے یہ مقصد حاصل کر لیا ، تو پھر اس بات کا تعین ہو گا کہ ملک کیا سمت اختیار کرے گا۔’’اگر انہیں 367 ووٹ مل جاتے ہیں تو انہیں اپنی مرضی کی تمام تبدیلیاں کرنے کا موقع مل جائے گا۔ اگر آئین ایسا ہو جس پر سب متفق ہوں، تو کسی حد تک سب مطمئن ہو جاتے ہیں۔ اگر سیاسی ماحول کشیدہ ہوتا ہے، تو اختلافات اور زیادہ شدید ہو جاتے ہیں۔‘‘

ترکی کے عام انتخاب میں اس بارے میں تو کوئی شبہ نہیں ہے کہ جیتنے والی پارٹی کون سی ہوگی۔ لیکن اس بارے میں توقعات ، بلکہ کچھ تشویش بھی ہے کہ جیتنے والی پارٹی کو کتنے ووٹوں کی سبقت حاصل ہوگی۔