ترک صدر رجب طیب اردوان نے بدھ کے روز وسطی انقرہ میں ہونے والے کار بم حملے کا بدلہ لینے کا عہد کیا ہے، جس میں کم از کم 28 افراد ہلاک, جب کہ 61 زخمی ہوئے۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ بم حملہ کرنے والوں نے تمام ’’اخلاقی اور انسانی حدیں پار کی ہیں‘‘ اور یہ کہ ترکی نہ صرف حملہ آوروں کے خلاف بلکہ اُن سے بھی بدلہ لے گا جو ’’طاقتیں‘‘، بقول اُن کے، اس کے پیچھے تھیں۔
اردوان نے آذربائیجان کا مجوزہ دورہ مؤخر کیا، جب کہ وزیر اعظم احمد داؤوداوگلو نے اپنا دورہٴ برسلز منسوخ کیا ہے، جہاں وہ دیگر یورپی رہنماؤں کے ساتھ مہاجرین کے بحران کے بارے میں بات چیت کرنے والے تھے۔
ادھر، انقرہ کے گورنر نے بتایا ہے کہ ترک دارالحکومت میں ایک زوردار دھماکہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں، کم از کم 28 افراد ہلاک جب کہ 61 زخمی ہوئے ہیں۔
یہ دھماکہ اُس وقت ہوا جب فوجی صدر دفتر سے محض چند سو میٹر کے فاصلے پر فوجی بسوں کا ایک قافلہ گزر رہا تھا۔
انقرہ کے گورنر، محمد قیصر نے بتایا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ دھماکہ کار میں نصب بم پھٹنے کے نتیجے میں واقع ہوا۔
پولیس حادثے کی تفتیش کر رہی ہے۔ ایمبولنس جائے حادثہ کی جانب پہنچ چکے ہیں۔
ایک اہل کار کا کہنا ہے کہ حملے کے پیشِ نظر، ترک وزیر اعظم محمد داؤداوگلو نے اس ہفتے شروع ہونے والے دورہٴ برسلز کو منسوخ کر دیا ہے۔
حکومت نے میڈیا پر دھماکے کی تصاویر دکھانے پر پابندی لگادی ہے۔
اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے، انقرہ میں امریکی سفارت خانے نے دھماکے کے بارے میں تعزیت کی ہے۔
کسی نے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ لیکن، ترک مسلح افواج ملک کے جنوب مشرقی علاقے میں، جہاں کُرد آبادی کی اکثریت ہے، کرد باغی گروپ، ’پی کے کے‘ کے خلاف کلیدی فوجی کارروائی کر رہی ہے۔
حکمراں ’اے کے پارٹی‘ کے ترجمان، عمر سالک نے ایک ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ ’’انقرہ میں دہشت گردی کا خوفناک حملہ ہوا ہے۔ ہم اس حملے کی مذمت کرتے ہیں‘‘۔