یورپی یونین کے اہل کاروں نے ترکی پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی سرحد کھولے جہاں صوبہ حلب میں جاری شدید سرکاری حملے کے نتیجے میں داخلی طور پر بے گھر ہو کر، لاکھوں شامی شہری سرحد عبور کرنے کے منتظر ہیں۔
یورپی یونین کی پالیسی سربراہ، فریڈریکا مغیرنی نے ہفتے کے روز یورپی وزرائے خارجہ اور اُن کے ترک ہم منصب کو بتایا کہ ترکی کے لیے یورپی یونین کی حمایت کا مقصد ''اِس بات کی گارنٹی دینا ہے کہ وہ بڑے تعداد میں آنے والے مہاجرین کے معاملے سے نمٹے گا۔''
ایمسٹرڈم میں اجلاس کے دوران، مغیرنی نے کہا کہ،''ِاس پر کوئی سوال نہیں اٹھ سکتا۔۔۔ کہ اندرونِ شام سے آنے والے لوگ شامی ہی ہیں، وہ شامی جنھیں بین الاقوامی تحفظ کی ضرورت ہے''۔
سرحد بند پڑی ہے
ترکی کے وزیر اعظم احمد دائوداوگلو نے دو روز قبل لندن میں منعقدہ شام کے لیے امداد دینے والوں کے اجلاس کو بتایا تھا کہ ترکی مہاجرین کو ملک آنے کی اجازت دے گا۔ تاہم، بے دخل ہونے والی لاکھوں سولین آبادی اس ہفتے شام سے ترکی کی سرحد پر جمع ہے، اور مایوسی کا شکار ہو چکی ہے کہ ترکی کے حکام اُنھیں تحفظ فراہم کرنے کے لیے اندر آنے کی اجازت کب دیں گے۔
انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ترکی امداد فراہم کر رہا ہے۔ تاہم، اُس نے اپنی سرحد بند رکھی ہے، حالانکہ وزیر خارجہ مولود کوسوگلو نے ہفتے کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ اُن کی حکومت ''سرحد کھلی رکھنے کی پالیسی'' پر عمل پیرا ہے، اُن لوگوں کے لیے جو حربی تشدد اور روسی فضائی حملوں سے بچنے کے لیے راہ تحفظ کی تلاش میں ہیں۔
ذرائع ابلاغ میں اس بات کی جانب توجہ دلائی گئی ہے کہ حلب کے پار سرحد کے قریب بمباری کے نتیجے میں زخمی ہونے والے درجنوں لوگوں کو ترکی نے اپنے ملک میں داخل ہونے کی اجازت دی ہے۔
شام کے سرکاری خبررساں ادارے، صنعا نے جمعے کے روز اطلاع دی ہے کہ حکومت نے حلب میں متعدد قصبہ جات کا دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ ماضی میں یہ ملک کا ایک اہم تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا؛ جب کہ اب سرکاری افواج اور مخالفین لڑاکوں کے درمیان شدید لڑائی اور مار دھاڑ کا میدان بنا ہوا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ ترکی تقریباً 20 لاکھ شامی مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے، ایسے میں جب شام کی خانہ جنگی کو پانچ برس ہونے والے ہیں۔
ترکی پر یورپی یونین کی جانب سے دبائو جاری ہے، جسے مہاجرین یورپ جانے کے لیے راستہ خیال کرتے ہیں۔ نومبر میں 3.35 ارب ڈالر کے سمجھوتے کا اعلان کیا گیا تھا، جس میں یورپی یونین نے اتفاق کیا کہ وہ یورپی یونین کا رُکن بننے کی ترکی کی پرانی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی کوششوں کو تیز کرے گا، جس کے بدلے ترکی مہاجرین کی تاریخ کے بڑے ریلے کو یورپ آنے سے روکے گا، جو گذشتہ کئی برس سے یورپ داخل ہوتے رہے ہیں۔