ترکی نے لیبیا میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ ترکی کا حالیہ اقدام عالمی رہنماؤں کی گزشتہ روز ہونے والی اس کانفرنس کے بعد سامنے آیا ہے جس میں لیبیا کی مقامی حکومت کو ملک کی تعمیرِ نو میں مدد فراہم کرنے کی غرض سے قذافی حکومت کے منجمد اثاثے استعمال کرنے کی اجازت دیے جانے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
ترکی کی وزارتِ خارجہ نے جمعہ کو بتایا کہ لیبیا کے لیے ترکی کے نئے سفیر علی کمال ایدین سفارتی عملہ کے ہمراہ جمعرات کو انقرہ سے تیونس کے لیے روانہ ہوگئے ہیں جہاں سے وہ سفارتی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے طرابلس جائیں گے۔
قبل ازیں جمعرات کو فرانس، برطانیہ اور دیگر ممالک کے رہنماؤں کی پیرس میں ہونے والی کانفرنس میں لیبیا کی عبوری حکومت کے لیے 15 ارب ڈالرز سے زائد کی معاشی اعانت کا اعلان کیا گیا تھا۔ کانفرنس میں شریک ممالک نے واضح کیا کہ جب تک ضرورت رہی ان کی جانب سے لیبیا میں فوجی آپریشنز جاری رکھے جائیں گے، تاہم ان کے بقول اب تمام تر توجہ ملک کی تعمیرِ نو پر مرکوز کردی گئی ہے۔
ادھر مزید کئی ممالک، بشمول روس اور رومانیہ نے قذافی مخالف اتحاد 'قومی عبوری کونسل' کو لیبیا کی قانونی حکومت کی حیثیت سےتسلیم کرلیا ہے۔ واضح رہے کہ ماسکو لیبیا میں نیٹو کی فضائی کارروائیوں کی مخالفت کر رہا تھا۔
دریں اثناء لیبیا کی عبوری حکومت کے ایک فوجی عہدیدار نے معمر قذافی کی جانب سے جاری کیے گئے حالیہ آڈیو پیغام پر اپنے ردِ عمل میں سابق حکمران کو "غیر واضح" قرار دیا ہے۔ قذافی نے بیان میں اپنے حامیوں سے لڑائی جاری رکھنے کا کہا تھا۔
عبوری انتظامیہ کے فوجی ترجمان کرنل احمد بانی نے جمعرات کی شب اپنے ایک بیان میں کہا کہ قذافی کا لیبیا کی عوام سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں رہا۔ ترجمان نے الزام لگایا کہ سابق رہنما لیبیا سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
فوجی ترجمان کا کہنا تھا کہ عبوری انتظامیہ کی افواج قذافی کے آبائی قصبہ سرت پر قبضہ کی کوشش کے دوران "خون بہانے" سے بچنا چاہتی ہیں۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اگر قذافی کے حامیوں نے آئندہ ہفتے تک ہتھیار نہ ڈالے تو ان کی افواج "شدید جنگ کے قابل اور اس کے لیے تیار" ہیں۔
احمد بانی کا بیان عرب نیوز ٹی وی چینلز پہ جاری ہونے والے ان دو آڈیو پیغامات کے نشر کیے جانے کے ردِ عمل میں سامنے آیا ہے جنہیں معمر قذافی سے منسوب کیا گیا تھا۔
ان پیغامات میں معمر قذافی نے کہا تھا کہ ان کے حامی کبھی ہار نہیں مانیں گے اور لیبیا کو گوریلا جنگ کے "شعلوں میں گھرا" چھوڑ جائیں گے۔ انہوں نے نیٹو پر لیبیا پر قبضہ کرنےکی کوششوں کا الزام عائد کرتے ہوئے لیبیا کی تیل کی برآمدات کو متاثر کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
'عبوری قومی کونسل' کی افواج نے قذافی انتظامیہ کے خاتمے کے بعد سرت پر قابض ان کے حامی جنگجوؤں کو ہتھیار ڈالنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا ہے۔ اس سے قبل عبوری انتظامیہ نے قذافی کے حامیوں کو ہتھیار ڈالنے کے لیے ہفتہ تک کی ڈیڈ لائن دی تھی تاہم بعد ازاں مقامی قبائلی رہنماؤں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں پیش رفت ہونے پر اس میں توسیع کردی گئی تھی۔
ڈیڈلائن میں توسیع دیگر علاقوں میں موجود قذافی کے حامیوں پر بھی لاگو ہوگی۔