ترکی: انٹرنیٹ تک رسائی روکنے کی کوششیں

فائل

اردوان کے الفاظ میں، ’’اب ایک نئی علت سامنے آئی ہے جسے ٹوئٹر کہا جاتا ہے۔ میرے خیال میں، سوشل میڈیا بدترین قسم کی منحوس شے ہے‘‘۔ اُنھوں نے فیس بک کو ’’غیر اخلاقی‘‘، اور یوٹیوب کو ’’نگلنے والی بلا‘‘ قرار دیتے ہوئے، عہد کیا ہے کہ ’’ٹوئٹر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا‘‘

عام حالات ہوں، تب بھی، ترک صدر رجب طیب اردوان کی حکومت کا انٹرنیٹ کے حوالے سے تعلق کشیدگی پر مبنی رہا ہے۔

ترکی کی بارہا یہی کوشش رہتی ہے کہ خبروں اور سماجی میڈیا کے مختلف سائٹس پر قدغن لگی رہی، جن میں یوٹیوب اور ٹوئٹر شامل ہے، سیاسی دباؤ کی صورت حال میں یا پھر ایسے مواد کا روکا جانا جسے عزت پر حرف آنے کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہو۔ روایتی طور پر، ایسی روک نا تو پائیدار ثابت ہوتی ہے، ناہی مؤثر، چونکہ ترکی میں ویب کے متعدد صارفین ایسی بندش کے توڑ کے طور پر ’ڈی این ایس‘ یا ’ٹور‘ جیسے آلات کا استعمال شروع کر دیتے ہیں۔

لیکن، حالیہ واقعات کے بعد، جن میں استنبول نائٹ کلب پر ہونے والا بم حملہ، روسی سفیر آندرے کارلوف کا قتل، یا فوج کے ایک دھڑے کی جانب سے جولائی میں تختہ الٹنے کی ناکام کوشش شامل ہے، انٹرنیٹ کے استعمال کے سلسلے میں اردوان حکومت کا مؤقف مستقل طور پر سخت روی پر مبنی رہا ہے۔

خصوصاً تجزیہ کاروں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اردوان کی انتظامیہ نے انٹرنیٹ پر قدغن لگانے اور موبائل فون کے ذریعے ویب تک رسائی کو مشکل تر بنانے کی سخت پالیسی اپنا رکھی ہے؛ اور پہلی بار، پابندیوں کو فوری طور پر واپس لینے سے انکار پر گامزن ہے۔

ویب اور سماجی میڈیا کے لیے اردوان کی مخاصمت کوئی نئی بات نہیں۔

سنہ 2013ء میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے، اردوان نے کہا تھا کہ ’’اب ایک نئی علت سامنے آئی ہے جسے ٹوئٹر کہا جاتا ہے۔ میرے خیال میں، سوشل میڈیا بدترین قسم کی منحوس شے ہے‘‘۔ اُنھوں نے فیس بک کو ’’غیر اخلاقی‘‘، اور یوٹیوب کو ’’نگلنے والی بلا‘‘ قرار دیتے ہوئے، عہد کیا کہ ’’ٹوئٹر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا‘‘۔