ترک صدر رجب طیب ایردواں، جو اس ہفتے اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ میں نیٹو کے سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے، فن لینڈ اور سویڈن کی مغربی ممالک کے عسکری اتحاد نیٹو میں شامل ہونے کی کوشش کو ویٹو کرنے کی اپنی دھمکی پر قائم ہیں۔
منگل کو ہونے والے نیٹو سربراہی اجلاس سے قبل ترکی نے خبردار کیا ہے کہ وہ ان دونوں ممالک کی نیٹو کی رکنیت کو ویٹو کے خطرے کو ختم کرنے کے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
ایردوان کے اعلی ترین مشیر ابراہیم قالن نے اتوار کو ترک ٹی وی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں ترکی کے مطالبات پورے نہیں ہوئے ہیں۔
مشیر نے کہا کہ ترکی نے مذاکرات کو ایک خاص موڑ پر پہنچا دیا ہے اور ترک رہنماؤں کے لیے ایک قدم پیچھے ہٹنا ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ترک سفارت کاروں نے یہ بات اپنے ہم منصبوں کو بتائی اور واضح کیا کہ اس ضمن میں اب اگلا مرحلے کا دارو مدار ان پر ہے۔
خیال رہے کہ صدر ایردوان چاہتے ہیں کہ سویڈن اور فن لینڈ کے وائے پی جی نامی گروپ سے منسلک شامی کرد جنگجوؤں کی حمایت ختم کر دیں کیونکہ یہ گروپ پی کے کے نامی تنظیم سے منسلک ہے جو دہائیوں سے ترک افواج کے خلاف برسرپیکار ہے۔ ترک حکومت پی کے کے کو ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس کے علاوہ ترکی نے سویڈن پر ایسے لوگوں کو پناہ دینے کا الزام بھی لگایا ہے جو، انقرہ کے مطابق ترکی میں 2016 کی بغاوت کی کوشش کے ذمہ دار تھے۔
ادھر مقامی ترک میڈیا نے پیر کو اطلاع دی ہے کہ ترک حکومت نے سویڈن اور فن لینڈ سے ان لوگوں کی ایک فہرست پیش کی ہے جن کی وہ حوالگی چاہتی ہے۔
اس تنازعہ پر بات کرتے ہوئے یورپی کونسل آن فارن ریلیشنز کے ایک سینئر فیلو اسلی آیدنتاسباس نے کہا کہ ترکی کے مطالبات کی بڑھتی ہوئی فہرست اس بات کی علامت ہے کہ انقرہ کا ایک وسیع ایجنڈا ہے۔
ان کے مطابق یہ بات واضح ہے کہ ترکی نیٹو کے ساتھ ایک بڑا معاہدہ کرنا چاہتا تھا جو اسے نہیں مل رہا ہے۔ آیدنتاسباس کہتے ہیں کہ اس کے بجائے، سویڈن اور فن لینڈ اور ترکی کے درمیان زیادہ دو طرفہ بات چیت ہو رہی ہےاور یہ ترکی کے لیے مایوسی کا باعث رہا ہے۔
آیدنتاسباس کا کہنا ہے کہ ایردواں چاہتے تھے کہ امریکہ کے صدر جوبائیڈن خود اس معاملے پر گفتگو میں شامل ہوں اور کچھ ترغیبات پیش کریں لیکن ایسا نہیں ہوا۔
اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے فلاڈیلفیا میں فارن پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ایرون اسٹین کا کہنا ہے کہ ترکی کے ممکنہ ویٹو کے باوجود سویڈن اور فن لینڈ کی سلامتی کسی بھی روسی خطرے سے محفوظ رہے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسٹین کے مطابق ترکی سویڈن اور فن لینڈ کی رکنیت کے معاملے کو تو روک سکتا ہے، لیکن وہ اتحاد کو نہیں روکے گا۔ معاملات آگے بڑھیں گے۔ انہوں نے کہا: یہاں واضح ہو نا چاہیے کہ نیٹو کا سب سے اہم رکن ملک امریکہ ہے۔ یہ وہ ملک ہے جو ان سب کی سلامتی کی ضمانت دیتا ہے۔ لہٰذا، اگر امریکہ ان دونوں ممالک کو تحفظ فراہم کرتا ہے - جو کہ جو بائیڈن نے مؤثر طریقے سے کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ے کہ اس سے فن لینڈ اور سویڈن میں اتحادیوں کی موجودگی کو بڑھانا ہوگا۔
ترک صدر اس تعطل کو حل کرنے کی خاطر میڈرڈ سربراہی اجلاس میں کئی ملاقاتیں کرنے والے ہیں۔
ایک اور تجزیہ کار ایڈن ٹاس باس کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ مسئلہ لٹک سکتا ہے یا اسے نیٹو سربراہی اجلاس میں حل بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ نیٹو کے رکن ممالک اور نیٹو خود مذاکرات میں کتنا بڑا انعام میز پر رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ ترکی پر کتنا دباؤ ہوگا۔ ان کے مطابق ایردواں جس چیز کی تلاش کر رہے ہیں وہ نیٹو رہنماؤں کے ساتھ نظر آنا ہے تا کہ وہ اپنے آپ کو ترک عوام کے سامنے ایک عالمی رہنما کے طور پر پیش کر سکیں جو ترکی کے لیے ایک بڑی سفارتی فتح لے کر آیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ا یردواں رائے عامہ میں پیچھے دکھائی دے رہے ہیں اور انہیں اس وقت اپنے آپ کو بوسٹ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ انہیں اب سے ایک سال بعد دوبارہ انتخاب کا سامنا ہو گا۔
ان ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر ایردواں اس بات کو جانتے ہیں کہ نیٹو کے سامنے اپنے موقف پر کھڑا ہونا ان کے ووٹنگ بیس کے لیے اچھا ہوگا ۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ ہو سکتا ہے ایردواں میڈرڈ سربراہی اجلاس کے بعد بھی اپنے اتحادی شراکت داروں پر اثرو رسوخ رکھنے کی پالیسی کو برقرار رکھیں گے۔