چار سعودی لڑاکا طیارے جمعے کے روز ترکی کے فوجی اڈے، انسرلک پر اترے، جو شام میں داعش کے خلاف امریکی قیادت والے مغربی اتحاد کی جانب سے فضائی کارروائی میں شامل ہوں گے، جس بات کا پتا ترک اہل کاروں اور خبروں سے چلا ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ کے نامہ نگار، تان سیتن ترک فضائی اڈے کے قریب موجود تھے۔ اُنھوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ آج صبح یہ سعودی لڑاکا طیارے وہاں اترے۔
یہ سب کچھ ایسے وقت ہو رہا ہے جب شام میں امریکہ اور روس کی جانب سے جنگ بندی طے پائی ہے۔ تجزیہ کاروں نے بتایا ہے کہ یہ جنگ بندی اتحادی افواج کی طرف سے داعش بم حملوں یا دیگر دہشت گرد اہداف کو نشانہ بنانے سے نہیں روکے گی، جب کہ شام کی خانہ جنگی کے خاتمے سے شام اور عراق میں دولت اسلامیہ کے خلاف نئی اتحادی حکمتِ عملی تشکیل پا سکتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سعودی حکومت نے اِن ایف 15 جیٹ طیاروں کی ترکی کے فوجی اڈے پر اترنے کی تصدیق نہیں کی۔ لیکن، سعودی تجزیہ کاروں نے بتایا ہے کہ حکومت کی نگاہیں اس بات پر لگی ہوئی ہیں کہ شام جنگ بندی عملاً کیا رُخ اختیار کرتی ہے۔
سعودی عرب میں ایک مقامی تجزیہ کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’جنگ بندی کی نوعیت کا سعودی عرب اور اُس کے اتحادیوں پر بہت زیادہ اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘
ترک وزیر خارجہ ملوت کوسگلو نے جمعرات کو اخباری نمائندوں کو بتایا کہ سعودی لڑاکا طیارے جمعے کو پہنچیں گے، اور مزید یہ کہ سعودی پیدل فوج بھی ترکی میں تعینات کی جاچکی ہے۔
دونوٕں ملکوں نے اس امکان کا اظہار کیا تھا کہ شام میں پیدل فوج تعینات ہوسکتی ہے۔ تاہم، مبصرین کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے نتیجے میں یہ معاملہ تھم سا گیا ہے۔
ایسے میں سعودی طیارے امریکی قیادت والے اتحاد میں شامل ہورہے ہیں، شام میں کرد افواج کے لیےامریکی حمایت کے معاملے پر سعودی عرب ترکی کے سفارتی تنازع کا حامی ہے۔ ترکی کرد فورسز کو ترکی کے لیے خطرے کا باعث گردانتا ہے اور چاہتا ہے کہ امریکہ اُن کی مدد بند کردے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ تنازعے والے خطے میں سعودی فوج کی آمد امریکہ کے لیے نئی پیچیدگی کا موجب بن سکتی ہے۔